The One to Whom belongs the kingship of the heavens and of the earth, and has not chosen a child, and has no partner in His kingship, and He has created everything and kept it in proper measure. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
الذي له ملك السموات والأرض، ولم يتخذ ولدًا، ولم يكن له شريك في ملكه، وهو الذي خلق كل شيء، فسوَّاه على ما يناسبه من الخلق وَفْق ما تقتضيه حكمته دون نقص أو خلل.
اللہ تعالیٰ ابن رحمت کا بیان فرماتا ہے تاکہ لوگوں پر اس کی بزرگی عیاں ہوجائے کہ اس نے اس پاک کلام کو اپنے بندے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر نازل فرمایا ہے۔ سورة کہف کے شروع میں بھی اپنی حمد اسی انداز سے بیان کی ہے یہاں اپنی ذات کا بابرکت ہونا بیان فرمایا اور یہی وصف بیان کیا۔ یہاں لفظ نزل فرمایا جس سے باربار بکثرت اترنا ثابت ہوتا ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت (وَالْكِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰي رَسُوْلِهٖ01306) 4۔ النسآء :136) پس پہلی کتابوں کو لفظ انزل سے اور اس آخر کتاب کو لفظ نزل سے تعبیر فرمانا ہے اسی لئے ہے کہ پہلی کتابیں ایک ساتھ اترتی رہیں اور قرآن کریم تھوڑا تھوڑا کر کے حسب ضرورت اترتا رہا کبھی کچھ آیتیں، کبھی کچھ سورتیں کبھی کچھ احکام۔ اس میں ایک بڑی حکمت یہ بھی تھی کہ لوگوں کو اس پر عمل کرنا مشکل نہ ہو اور خوب یاد ہوجائے اور مان لینے کے لئے دل کھل جائے۔ جیسے کہ اسی سورت میں فرمایا ہے کہ کافروں کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ قرآن کریم اس نبی پر ایک ساتھ کیوں نہ اترا ؟ جواب دیا گیا ہے کہ اس طرح اس لئے اترا کہ اس کے ساتھ تیری دل جمعی رہے اور ہم نے ٹھہرا ٹھہرا کر نازل فرمایا۔ یہ جو بھی بات بنائیں گے ہم اس کا صحیح اور جچا تلا جواب دیں جو خوب مفصل ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اس آیت میں اس کا نام فرقان رکھا۔ اس لئے کہ یہ حق وباطل میں ہدایت و گمراہی میں فرق کرنے والا ہے اس سے بھلائی برائی میں حلال حرام میں تمیز ہوتی ہے۔ قرآن کریم کی یہ پاک صفت بیان فرما کر جس پر قرآن اترا ان کی ایک پاک صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ خاص اس کی عبادت میں لگے رہنے والے ہیں اس کے مخلص بندے ہیں۔ یہ وصف سب سے اعلیٰ وصف ہے اسی لئے بڑی بڑی نعمتوں کے بیان کے موقعہ پر آنحضرت ﷺ کا یہی وصف بیان فرمایا گیا ہے۔ جیسے معراج کے موقعہ پر فرمایا آیت (سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا ۭ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ) 17۔ الإسراء :1) اور جیسے اپنی خاص عبادت نماز کے موقعہ پر فرمایا آیت (وَّاَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ يَدْعُوْهُ كَادُوْا يَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِ لِبَدًا 19ۉ) 72۔ الجن :19) اور جب بندہ اللہ یعنی حضرت محمد ﷺ کی عبادت کرنے کھڑے ہوتے ہیں یہی وصف قرآن کریم کے اترنے اور آپ کے پاس بزرگ فرشتے کے آنے کے اکرام کے بیان کرنے کے موقعہ پر بیان فرمایا۔ پھر ارشاد ہوا کہ اس پاک کتاب کا آپ کی طرف اترنا اس لئے ہے کہ آپ تمام جہان کے لئے آگاہ کرنے والے بن جائیں، ایسی کتاب جو سراسر حکمت و ہدایت والی ہے جو مفصل مبین اور محکم ہے جس کے آس پاس بھی باطل پھٹک نہیں سکتا جو حکیم وحمید اللہ کی طرف سے اتاری ہوئی ہے۔ آپ اس کی تبلیغ دنیا بھر میں کردیں ہر سرخ وسفید کو ہر دور و نزدیک والے کو اللہ کے عذابوں سے ڈرادیں، جو بھی آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر ہے اس کی طرف آپ کی رسالت ہے۔ جیسے کہ خودحضور ﷺ کا فرمان ہے میں تمام سرخ وسفید انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں اور فرمان ہے مجھے پانچ باتیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئی تھیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہر نبی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا رہا لیکن میں تمام دنیا کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ خود قرآن میں ہے آیت (قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ01508) 7۔ الاعراف :158) اے نبی اعلان کردو کہ اے دنیا کے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر ہوں۔ پھر فرمایا کہ مجھے رسول بنا کر بھیجنے والا مجھ پر یہ پاک کتاب اتارنے والا وہ اللہ ہے جو آسمان و زمین کا تنہا مالک ہے جو جس کام کو کرنا چاہے اسے کہہ دیتا ہے کہ ہوجاوہ اسی وقت ہوجاتا ہے۔ وہی مارتا اور جلاتا ہے اس کی کوئی اولاد نہیں نہ اس کا کوئی شریک ہے ہر چیز اس کی مخلوق اور اس کی زیر پرورش ہے۔ سب کا خالق، مالک، رازق، معبود اور رب وہی ہے۔ ہر چیز کا اندازہ مقرر کرنے والا اور تدبیر کرنے والا وہی ہے۔
He to Whom belongs the kingdom of the heavens and the earth and Who has not taken a son nor has He any partner in sovereignty; and He created everything which was meant to be created and then determined it in a precise measure He fashioned it in a balanced form.