And We turned all the deeds they had performed into scattered floating specks of dust. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
وقَدِمْنا إلى ما عملوه مِن مظاهر الخير والبر، فجعلناه باطلا مضمحلا لا ينفعهم كالهباء المنثور، وهو ما يُرى في ضوء الشمس من خفيف الغبار؛ وذلك أن العمل لا ينفع في الآخرة إلا إذا توفر في صاحبه: الإيمان بالله، والإخلاص له، والمتابعة لرسوله محمد، صلى الله عليه وسلم.
کافر جو اس بات پر اعتراض کرتے تھے کہ نبی کو کھانے پینے اور تجارت بیوپار سے کیا مطلب ؟ اس کا جواب ہو رہا ہے کہ اگلے سب پیغمبر بھی انسانی ضرورتیں بھی رکھتے تھے کھانا پینا ان کے ساتھ بھی لگا ہوا تھا۔ بیوپار، تجارت اور کسب معاش وہ بھی کیا کرتے تھے یہ چیزیں نبوت کے خلاف نہیں۔ ہاں اللہ تعالیٰ عزوجل اپنی عنایت خاص سے انہیں وہ پاکیزہ اوصاف نیک خصائل عمدہ اقوال مختار افعال ظاہر دلیلیں اعلیٰ معجزے دیتا ہے کہ ہر عقل سلیم والا ہر دانا بینا مجبور ہوجاتا ہے کہ ان کی نبوت کو تسلیم کرلے اور ان کی سچائی کو مان لے۔ اسی آیت جیسی اور آیت (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ 43ۙ) 16۔ النحل :43) ، ہے۔ یعنی تجھ سے پہلے بھی جتنے نبی آئے سب شہروں میں رہنے والے انسان ہی تھے۔ اور آیت میں ہے۔ (وَمَا جَعَلْنٰهُمْ جَسَدًا لَّا يَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوْا خٰلِدِيْنَ) 21۔ الأنبیاء :8) ، ہم نے انہیں ایسے جثے نہیں بنا رہے تھے کہ کھانے پینے سے وہ آزاد ہوں۔ ہم تو تم میں سے ایک ایک کی آزمائش ایک ایک سے کرلیا کرتے ہیں تاکہ فرمانبردار اور نافرمان ظاہر ہوجائیں۔ صابر اور غیر صابر معلوم ہوجائیں۔ تیرا رب دانا وبینا ہے خوب جانتا ہے کہ مستحق نبوت کون ہے ؟ جیسے فرمایا آیت (اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ۭسَيُصِيْبُ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَعَذَابٌ شَدِيْدٌۢ بِمَا كَانُوْا يَمْكُرُوْنَ01204) 6۔ الانعام :124) منصب رسالت کی اہلیت کس میں ہے ؟ اسے اللہ ہی بخوبی جانتا ہے۔ اسی کو اس کا علم ہے کہ مستحق ہدایت کون ہیں ؟ اور کون نہیں ؟ چونکہ اللہ کا ارادہ بندوں کا امتحان لینے کا ہے اس لئے نبیوں کو عموما معمولی حالت میں رکھتا ہے ورنہ اگر انہیں بکثرت دنیا دیتا ہے تو ان کے مال کے لالچ میں بہت سے ان کے ساتھ ہوجاتے ہیں تو پھر سچے جھوٹے مل جاتے۔ صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں خود تجھے اور تیری وجہ سے اور لوگوں کو آزمانے والا ہوں۔ مسند میں ہے آپ فرماتے ہیں اگر میں چاہتا تو میرے ساتھ سونے چاندی کے پہاڑ چلتے رہتے اور صحیح حدیث شریف میں ہے کہ آنحضرت ﷺ کو نبی اور بادشاہ بننے میں اور نبی بننے میں اختیار دیا گیا ہے تو آپ نے بندہ اور نبی بننا پسند فرمایا۔ فصلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلی الہ واصحابہ اجمعین
And We shall attend to We shall turn to the works they did that were good such as voluntary alms or kindness to kin a hospitable reception of a guest or the succour of a troubled person in this world and turn them into scattered dust habā’an manthūran namely as those individual particles of dust which one might observe near a window when the sun is shining through. In other words We shall make their good works like those particles of dust in their uselessness there being no reward for such works for lack of any binding obligation to reward them therefor; but they are rewarded for it in the life of this world.