“And publicly announce the pilgrimage to all people – they will come to you, on foot and on every lean she-camel, coming from every far distant journey.” (The announcement by Prophet Ibrahim reached each and every soul.) — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
وأعلِمْ- يا إبراهيم- الناس بوجوب الحج عليهم يأتوك على مختلف أحوالهم مشاةً وركبانًا على كل ضامر من الإبل، وهو: (الخفيف اللحم من السَّيْر والأعمال لا من الهُزال)، يأتين من كل طريق بعيد؛ ليحضروا منافع لهم من: مغفرة ذنوبهم، وثواب أداء نسكهم وطاعتهم، وتكَسُّبِهم في تجاراتهم، وغير ذلك؛ وليذكروا اسم الله على ذَبْح ما يتقربون به من الإبل والبقر والغنم في أيام معيَّنة هي: عاشر ذي الحجة وثلاثة أيام بعده؛ شكرًا لله على نعمه، وهم مأمورون أن يأكلوا مِن هذه الذبائح استحبابًا، ويُطعموا منها الفقير الذي اشتد فقره.
مسجد حرام کی اولین بنیاد توحید یہاں مشرکین کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ وہ گھر جس کی بنیاد اول دن سے اللہ کی توحید پر رکھی گئی ہے تم نے اس میں شرک جاری کردیا۔ اس گھر کے بانی خلیل اللہ ؑ ہیں سب سے پہلے آپ نے ہی اسے بنایا۔ آنحضور ﷺ سے ابوذر ؓ نے سوال کیا کہ حضور ﷺ سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ؟ فرمایا مسجد حرام۔ میں نے کہا پھر ؟ فرمایا بیت المقدس۔ میں نے کہا ان دونوں کے درمیان کس قدر مدت کا فاصلہ ہے ؟ فرمایا چالیس سال کا۔ اللہ کا فرمان ہے آیت (اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ للنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِيْنَ 96ۚ) 3۔ آل عمران :96) ، دو آیتوں تک۔ اور آیت میں ہے ہم نے ابراہیم واسماعیل ؑ سے وعدہ کرلیا کہ میرے گھر کو پاک رکھنا الخ بیت اللہ شریف کی بنا کا کل ذکر ہے ہم پہلے لکھ چکے ہیں اس لئے یہاں دوبارہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ یہاں فرمایا اسے صرف میرے نام پر بنا اور اسے پاک رکھ یعنی شرک وغیرہ سے اور اسے خاص کردے ان کے لئے جو موحد ہیں۔ طواف وہ عبادت ہے جو ساری زمین پر بجز بیت اللہ کے میسر ہی نہیں ناجائز ہے۔ پھر طواف کے ساتھ نماز کو ملایا قیام، رکوع، سجدے، کا ذکر فرمایا اس لئے کہ جس طرح طواف اس کے ساتھ مخصوص ہے نماز کا قبلہ بھی یہی ہے ہاں اس کی حالت میں کہ انسان کو معلوم نہ ہو یا جہاد میں ہو یا سفر میں ہو نفل نماز پڑھ رہا ہو تو بیشک قبلہ کی طرف منہ نہ ہونے کی حالت میں بھی نماز ہوجائے گی واللہ اعلم۔ اور یہ حکم ملا کہ اس گھر کے حج کی طرف تمام انسانوں کو بلا۔ مذکور ہے کہ آپ نے اس وقت عرض کی کہ باری تعالیٰ میری آواز ان تک کیسے پہنچے گی ؟ جواب ملا کہ آپ کے ذمہ صرف پکارنا ہے آواز پہنچانا میرے ذمہ ہے۔ آپ نے مقام ابراہیم پر یا صفا پہاڑی پر ابو قیس پہاڑ پر کھڑے ہو کر ندا کی کہ لوگو ! تمہارے رب نے اپنا ایک گھر بنایا ہے پس تم اس کا حج کرو۔ پہاڑ جھک گئے اور آپ کی آواز ساری دنیا میں گونج گئی۔ یہاں تک کہ باپ کی پیٹھ میں اور ماں کے پیٹ میں جو تھے انہیں بھی سنائی دی۔ ہر پتھر درخت اور ہر اس شخص نے جس کی قسمت میں حج کرنا لکھا تھا باآواز لبیک پکارا۔ بہت سے سلف سے یہ منقول ہے، واللہ اعلم۔ پھر فرمایا پیدل لوگ بھی آئیں گے اور سواریوں پر سوار بھی آئیں گے۔ اس سے بعض حضرات نے استدلال کیا ہے کہ جسے طاقت ہو اس کے لئے پیدل حج کرنا سواری پر حج کرنے سے افضل ہے اس لئے کہ پہلے پیدل والوں کا ذکر ہے پھر سواروں کا۔ تو ان کی طرف توجہ زیادہ ہوئی اور ان کی ہمت کی قدر دانی کی گئی۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں میری یہ تمنا رہ گئی کہ کاش کہ میں پیدل حج کرتا۔ اس لئے کہ فرمان الٰہی میں پیدل والوں کا ذکر ہے۔ لیکن اکثر بزرگوں کا قول ہے کہ سواری پر افضل ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے باوجود کمال قدرت وقوت کے پاپیادہ حج نہیں کیا تو سواری پر حج کرنا حضور ﷺ کی پوری اقتدا ہے پھر فرمایا دور دراز سے حج کے لئے آئیں گے خلیل اللہ ؑ کی دعا بھی یہی تھی کہ آیت (فاجعل افئدۃ من الناس تہوی الیہم) لوگوں کے دلوں کو اے اللہ تو ان کی طرف متوجہ کردے۔ آج دیکھ لو وہ کونسا مسلمان ہے جس کا دل کعبے کی زیارت کا مشتاق نہ ہو ؟ اور جس کے دل میں طواف کی تمنائیں تڑپ نہ رہی ہوں۔ (اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے)
And announce call out among the people the season for Pilgrimage. Thus he cried out from the top of the mountain of Abū Qubays ‘O people your Lord has built a House and has made pilgrimage to it an obligation upon you so respond to the call of your Lord’ turning his face to the right and to the left to the east and to the west; and every one of those for whom the performance of the pilgrimage had been preordained by God from among the loins of men and the wombs of women responded to him thus ‘At Your service our Lord we are at Your service’ labbayka’Llāhumma labbayk. The response to the command clause is the following and they shall come to you on foot walking rijāl plural of rājil similar in pattern to qā’im ‘standing’ and its plural qiyām and riding on every lean camel that is on every emaciated camel dāmir this term may be used to refer to both male and female camels. They shall come that is the lean camels by grammatical agreement with the feminine verb form from every deep ravine from every distant route