And will not be able to hide from it. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
وإن الفُجَّار الذين قَصَّروا في حقوق الله وحقوق عباده لفي جحيم، يصيبهم لهبها يوم الجزاء، وما هم عن عذاب جهنم بغائبين لا بخروج ولا بموت.
ابرار کا کردار جو لوگ اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار فرمانبردار، گناہوں سے دور رہتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ جنت کی خوش خبری دیتا ہے حدیث میں ہے کہ انہیں ابرار اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے ماں باپ کے فرمانبردار تھے اور اپنی اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرتے تھے، بدکار لوگ دائمی عذاب میں پڑیں گے، قیامت کے دن جو حساب کا اور بدلے کا دن ہے ان کا داخلہ اس میں ہوگا ایک ساعت بھی ان پر عذاب ہلکا نہ ہوگا نہ موت آئے گی نہ راحت ملے گی نہ ایک ذرا سی دیر اس سے الگ ہوں گے۔ پھر قیامت کی بڑائی اور اس دن کی ہولناکی ظاہر کرنے کے لیے دو دو بار فرمایا کہ تمہیں کس چیز نے معلوم کرایا کہ وہ دن کیسا ہے ؟ پھر خود ہی بتلایا کہ اس دن کوئی کسی کو کچھ بھی نفع نہ پہنچا سکے گا نہ عذاب سے نجات دلا سکے گا۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ کسی کی سفارش کی اجازت خود اللہ تبارک و تعالیٰ عطا فرمائے۔ اس موقعہ پر یہ حدیث وارد کرنی بالکل مناسب ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے بنو ہاشم اپنی جانوں کو جہنم سے بچانے کے لیے نیک اعمال کی تیاریاں کرلو میں تمہیں اس دن اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کا اختیار نہیں رکھتا۔ یہ حدیث سورة شعراء کی تفسیر کے آخر میں گزر چکی ہے۔ یہاں بھی فرمایا کہ اس دن امر محض اللہ کا ہی ہوگا۔ جیسے اور جگہ ہے آیت (لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۭ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ 16) 40۔ غافر :16) اور جگہ ارشاد ہے آیت (اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ للرَّحْمٰنِ ۭ وَكَانَ يَوْمًا عَلَي الْكٰفِرِيْنَ عَسِيْرًا 26) 25۔ الفرقان :26) اور فرمایا آیت (مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ۭ) 1۔ الفاتحة :4) مطلب سب کا یہی ہے کہ ملک و ملکیت اس دن صرف اللہ واحد قہار و رحمٰن کی ہی ہوگی۔ گو آج بھی اسی کی ملکیت ہے وہ ہی تنہا مالک ہے اسی کا حکم چلتا ہے مگر وہاں ظاہر داری حکومت، ملکیت اور امر بھی نہ ہوگا۔ سورة انفطار کی تفسیر ختم ہوئی۔ فالحمد اللہ۔
and they shall not be absent from it they shall not be taken out of it.