Proclaim (O dear Prophet Mohammed – peace and blessings be upon him), “Indeed death which you run away from will surely confront you, then you will be returned to Him Who knows all the hidden and the visible – He will then inform you of what you did.” — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
قل: إن الموت الذي تهربون منه لا مفرَّ منه، فإنه آتٍ إليكم عند مجيء آجالكم، ثم ترجعون يوم البعث إلى الله العالم بما غاب وما حضر، فيخبركم بأعمالكم، وسيجازيكم عليها.
کتابوں کا بوجھ لادا گدھا اور بےعمل عالم ان آیتوں میں یہودیوں کی مذمت بیان ہو رہی ہے کہ انہیں تورات دی کتابوں کا بوجھ لاد دیا جائے تو اسے یہ تو معلوم ہے کہ اس پر کوئی بوجھ ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ اس میں کیا ہے ؟ اسی طرح یہود ہیں کہ ظاہری الفاظ تو خوب رٹے ہوئے ہیں لیکن نہ تو یہ معلوم ہے کہ مطلب کیا ہے ؟ نہ اس پر ان کا عمل ہے بلکہ اور تبدیل و تحریف کرتے رہتے ہیں، پس درصال یہ اس بےسمجھ جانور سے بھی بدترین، کیونکہ اسے تو قدرت نے سمجھ ہی نہیں دی لیکن یہ سمجھ رکھتے ہوئے پھر بھی اس کا استعمال نہیں کرتے۔ اسی لئے دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے۔ (ترجمہ) یہ لوگ مثل چوپایوں کے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بہکے ہوئے، یہ غافل لوگ ہیں۔ یہاں فرمایا اللہ کیا آیتوں کے جھٹلانے الوں کی بری مثال ہے، ایسے ظالم اللہ کی رہنمائی سے محروم رہتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے جو شخص جمعہ کے دن امام کے خطبہ کی حالت میں بات کرے، وہ مثل گدھے کے ہے جو کتابیں اٹھائے ہوئے ہو اور جو اسے کہے کہ چپ رہ اس کا بھی جمعہ جاتا رہا۔ پھر فرماتا ہے اے یہود ! اگر تمہارا دعویٰ ہے کہ تم حق پر ہو اور آنحضرت ﷺ اور آپ کے اصحاب ناحق پر ہیں تو آؤ اور دعا مانگو کہ ہم دونوں میں سے جو حق پر نہ ہو اللہ اسے موت دے، پھر فرماتا ہے کہ انہوں نے جو اعمال آگے بھیج رکھے ہیں وہ ان کے سامنے ہیں مثلاً کفر فجور ظلم نافرمانی وغیرہ اس وجہ سے ہماری پیشین گوئی ہے کہ وہ اس پر آمادگی نہیں کریں گے، ان ظالموں کو اللہ بخوبی جانتا ہے۔ سورة بقرہ کی آیت قل ان کانت الخ، کی تفسیر میں یہودیوں کے اس مباہلے کا پورا ذکر ہم کرچکے ہیں اور وہیں یہ بھی بیان کردیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ اپنے اوپر اگر خود گمراہ ہوں تو ان پر تو یا اپنے مقابل پر اگر وہ گمراہ ہوں موت کی بد دعا کریں، جیسے کہ نصرانیوں کے مباہلہ کا ذکر سورة آل عمران میں گذر چکا ہے، ملاحظہ ہو تفسیر آیت فمن حاجک الخ، مشرکین سے بھی مباہلہ کا اعلان کیا گیا ملاحظہ ہو تفسیر سورة مریم آیت (قُلْ مَنْ كَانَ فِي الضَّلٰلَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمٰنُ مَدًّا 75) 19۔ مریم :75) ، یعنی اے نبی ﷺ ان سے کہہ دے کہ جو گمراہی میں ہو رحمٰن اسے اور بڑھا دے۔ مسند احمد میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ابو جہل لعنتہ اللہ علیہ نے کہا کہ اگر میں محمد ﷺ کو کعبہ کے پاس دیکھوں گا تو اس کی گردن ناپوں گا جب یہ خبر حضور ﷺ کو پہنچی تو آپ نے فرمایا اگر یہ ایسا کرتا تو سب کے دیکھتے فرشتے اسے پکڑ لیتے اور اگر یہود میرے مقابلہ پر آ کر موت طلب کرتے تو یقینا وہ مرجاتے اور اپنی جگہ جہنم میں دیکھ لیتے اور اگر مباہلہ کے لئے لوگ نکلتے تو وہ لوٹ کر اپنے اہل و مال کو ہرگز نہ پاتے۔ یہ حدیث بخاری ترمذی اور نسائی میں بھی موجود ہے، پھر فرماتا ہے موت سے تو کوئی بچہی نہیں سکتا، جیسے سورة نساء میں ہے (ترجمہ) یعنی تم جہاں کہیں بھی ہو وہاں تمہیں موت پا ہی لے گی گو مضبوط محلوں میں ہو، معجم طبرانی کی ایک مرفوع حدیث میں ہے موت سے بھاگنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے ایک لومڑی ہو جس پر زمین کا کچھ قرض ہو وہ اس خوف سے کہ کہیں یہ مجھ سے مانگ نہ بیٹھے، بھاگے، بھاگتے بھاگتے جب تھک جائے تب اپنے بھٹ میں گھس جائے جہاں گھسی اور زمین نے پھر اس سے تقاضا کیا کہ لومڑی میرا قرض ادا کردو پھر وہاں سے دم دبائے ہوئے تیزی سے بھاگی آخر یونہی بھاگتے بھاگتے ہلاک ہوگئی۔
Say ‘Assuredly the death from which you flee fa-innahu the fā’ is extra will indeed encounter you; then you will be returned to the Knower of the Unseen and the visible the Knower of what is kept secret and what is in the open and He will inform you of what you used to do’ whereat He will requite you for it.