And the Day when He will proclaim, “Call those partners of Mine whom you had assumed” – so they will call out to them – they will not answer them, and We shall create a field of destruction between them. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
واذكر لهم إذ يقول الله للمشركين يوم القيامة: نادوا شركائي الذين كنتم تزعمون أنهم شركاء لي في العبادة؛ لينصروكم اليوم مني، فاستغاثوا بهم فلم يغيثوهم، وجعلنا بين العابدين والمعبودين مهلكًا في جهنم يهلكون فيه جميعًا.
مشرک قیامت کو شرمندہ ہوں گے تمام مشرکوں کو قیامت کے دن شرمندہ کرنے کے لئے سب کے سامنے کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو پکارو جنہیں تم دنیا میں پکارتے رہے تاکہ وہ تمہیں آج کے دن کی مصیبت سے بچا لیں وہ پکاریں گے لیکن کہیں سے کوئی جواب نہ پائیں گے جیسے اور آیت میں ہے (وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰي كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّتَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَاۗءَ ظُهُوْرِكُمْ ۚ 94) 6۔ الانعام :94) ہم تمہیں اسی طرح تنہا تنہا لائے جیسے کہ ہم نے تمہارے ساتھ ان شریکوں میں سے کسی ایک کو بھی نہیں دیکھتے جنہیں تم شریک الہٰی ٹھیرائے ہوئے تھے اور جن کی شفاعت کا یقین کئے ہوئے تھے تمہارے اور ان کے درمیان میں تعلقات ٹوٹ گئے اور تمہارے گمان باطل ثابت ہوچکے اور آیت میں ہے (وَقِيْلَ ادْعُوْا شُرَكَاۗءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَهُمْ وَرَاَوُا الْعَذَابَ ۚ لَوْ اَنَّهُمْ كَانُوْا يَهْتَدُوْنَ 64) 28۔ القصص :64) کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو پکارو یہ پکاریں گے لیکن وہ جواب نہ دیں گے الخ اسی مضمون کو آیت ومن اضل سے دو آیتوں تک بیان فرمایا ہے سورة مریم میں ارشاد ہے کہ انہوں نے اپنی عزت کے لئے اللہ کے سوا اور بہت معبود بنا رکھے ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوگا وہ تو سب ان کی عبادت کے منکر ہوجائیں گے اور الٹے ان کے دشمن بن جائیں گے۔ ان میں اور ان کے معبودان باطل میں ہم آڑ حجاب اور ہلاکت کا گڑھا بنادیں گے تاکہ یہ ان سے اور وہ ان سے نہ مل سکیں۔ نیک راہ اور گمراہ الگ الگ رہیں، جہنم کی یہ وادی انہیں آپس میں ملنے نہ دے گی۔ کہتے ہیں یہ وادی لہو اور پیپ کی ہوگی، ان میں آپس میں اس دن دشمنی ہوجائے گی۔ بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ مراد اس سے ہلاکت ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جہنم کی کوئی وادی بھی ہو یا اور کوئی فاصلے کی وادی ہو، مقصود یہ ہے کہ ان عابدوں کو نہ معبود جواب تک نہ دیں گے نہ یہ آپس میں ایک دوسرے سے مل سکیں گے۔ کیونکہ ان کے درمیان ہلاکت ہوگی اور ہولناک امور ہوں گے۔ عبداللہ بن عمرو ؓ نے کہا ہے مراد یہ ہے کہ مشرکوں اور مسلمانوں میں ہم آڑ کردیں گے جیسے آیت (وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ يَوْمَىِٕذٍ يَّتَفَرَّقُوْنَ 14) 30۔ الروم :14) اور آیت (فَاَقِمْ وَجْهَكَ للدِّيْنِ الْقَيِّمِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ يَوْمَىِٕذٍ يَّصَّدَّعُوْنَ 43) 30۔ الروم :43) اور آیت (وَامْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ 59) 36۔ يس :59) اور آیت (وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوْٓا اَيْنَ شُرَكَاۗؤُكُمُ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ 22) 6۔ الانعام :22) وغیرہ میں ہے۔ یہ گنہگار جہنم دیکھ لیں گے۔ ستر ہزار لگاموں میں وہ جکڑی ہوئی ہوگی ہر ایک لگام پر ستر ستر ہزار فرشتے ہوں گے دیکھتے ہی سمجھ لیں گے کہ ہمارا قیدخانہ یہی ہے۔ داخلے کے بغیر داخلے سے بھی زیادہ رنج و غم اور مصیبت والم شروع ہوجائے گا۔ عذاب کا یقین عذاب سے پہلے کا عذاب ہم لیکن کوئی چھٹکارے کی راہ نہ پائیں گے کوئی نجات کی صورت نظر نہ آئے گی۔ حدیث میں ہے کہ پانچ ہزار سال تک کافر اسی تھر تھری میں رہے گا کہ جہنم اس کے سامنے اور اس کا کلیجہ قابو سے باہر ہے۔
And the day yawma is in the accusative because it is governed by the implicit udhkur ‘mention’ when He will say yaqūl or it may be read as naqūl ‘We will say’ ‘Call those partners of Mine those graven images as you used to claim’ let them intercede for you in the way you used to claim; and then they will call them but they will not respond to their call they will not answer them and We shall set between them between the graven images and those who worship them a gulf of doom — a valley from among the valleys of Hell in which they shall all be destroyed the term mawbiq derives from the verb wabaqa meaning halaka ‘he was destroyed’.