He said, “Therefore if you stay with me, do not ask me about anything until I myself mention it to you.” — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
فوافق الخَضِر وقال له: فإنْ صاحَبتني فلا تسألني عن شيء تنكره، حتى أبيِّن لك من أمره ما خفي عليك دون سؤال منك.
شوق تعلیم و تعلم یہاں اس گفتگو کا ذکر ہو رہا ہے جو حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت خضر ؑ کے درمیان ہوئی تھی۔ حضرت خضر اس علم کے ساتھ مخصوص کئے گئے تھے جو حضرت موسیٰ ؑ کو نہ تھا۔ اور حضرت موسیٰ کے پاس وہ علم تھا جس سے حضرت خضر بیخبر تھے پس حضرت موسیٰ ؑ ادب سے اور اس لئے کہ حضرت خضر کو مہربان کرلیں ان سے سوال کرتے ہیں۔ شاگرد کو اسی طرح ادب کے ساتھ اپنے استاد سے دریافت کرنا چاہئے پوچھتے ہیں کہ اگر اجازت ہو تو میں آپ کے ساتھ رہوں، آپ کی خدمت کرتا رہوں اور آپ سے علم حاصل کروں جس سے مجھے نفع پہنچے اور میرے عمل نیک ہوجائیں۔ حضرت خضر اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ تم میرا ساتھ نہیں نبھا سکتے میرے کام آپ کو اپنے علم کے خلاف نظر آئیں گے میرا علم آپ کو نہیں اور آپ کو جو علم ہے وہ اللہ نے مجھے نہیں سکھایا پس میں اپنی ایک الگ خدمت پر مقرر ہوں اور آپ الگ خدمت پر۔ ناممکن ہے کہ آپ اپنی معلومات کے خلاف میرے افعال دیکھیں اور پھر صبر کرسکیں۔ اور واقعہ میں آپ اس حال میں معذور بھی ہیں۔ کیونکہ باطنی حکمت اور مصلحت آپ کا معلوم نہیں اور مجھے اللہ تعالیٰ ان پر مطلع فرما دیا کرتا ہے۔ اس پر حضرت موسیٰ ؑ نے جواب دیا کہ آپ جو کچھ کریں گے میں اسے صبر سے برداشت کرتا رہوں گا کسی بات میں آپ کے خلاف نہ کروں گا۔ پھر حضرت خضر نے ایک شرط پیش کی کہ اچھا کسی چیز کے بارے میں تم مجھ سے سوال نہ کرنا میں جو کہوں وہ سن لینا تم اپنی طرف سے کسی سوال کی ابتدا نہ کرنا۔ ابی جریر میں ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ رب العالمین عز و جل سے سوال کیا کہ تجھے اپنے بندوں سے زیادہ پیارا کون ہے ؟ جواب ملا کے جو ہر وقت میری یاد میں رہے اور مجھے نہ بھلائے۔ پوچھا کہ تمام بندوں میں سے اچھا فیصلہ کرنے ولا کون ہے ؟ فرمایا جو حق کے ساتھ فیصلے کرے اور خواہش کے پیچھے نہ پڑے۔ دریافت کیا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ فرمایا وہ جو عالم زیادہ علم کی جستجو میں رہے ہر ایک سے سیکھتا رہے کہ ممک ہے کوئی ہدایت کا کلمہ مل جائے اور ممکن ہے کوئی بات گمراہی سے نکلنے کی ہاتھ لگ جائے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے پھر دریافت کیا کہ کیا زمین میں تیرا کوئی بندہ مجھ سے بھی زیادہ عالم ہے ؟ فرمایا ہاں پوچھا وہ کون ہے ؟ فرمایا خضر۔ فرمایا میں اسے کہاں تلاش کروں ؟ فرمایا دریا کے کنارے پتھر کے پاس جہاں سے مچھلی بھاگ کھڑی ہو۔ پس حضرت موسیٰ ؑ ان کی جستجو میں چلے پھر وہ ہوا جس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے۔ اسی پتھر کے پاس دونوں کی ملاقات ہوئی۔ اس روایت میں یہ ہے کہ سمندروں کے ملاپ کی جگہ جہاں سے زیادہ پانی کہیں بھی نہیں۔ چڑیا نے چونچ میں پانی لیا تھا۔
He said ‘If you follow me then do not question me lā tas’alnī a variant reading has lā tas’alannī concerning anything that you might find objectionable in what I do according to your limited knowledge and be patient until I myself make mention of it to you’ in other words until I mention it to you with an explication of the reason for it. Moses accepted his precondition bearing in mind the respect which a student should exercise in the presence of a teacher.