Said Moosa, “Do not apprehend me upon my forgetting, and do not impose difficulty on me in my task.” — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
قال موسى معتذرًا: لا تؤاخذني بنسياني شرطك عليَّ، ولا تكلفني مشقةً في تعلُّمي منك، وعاملني بيسر ورفق.
شرائط طے ہو گئیں دونوں میں جب شرط طے ہوگئی کہ تو سوال نہ کرنا جب تک میں خود ہی اس کی حکمت تجھ پر ظاہر نہ کروں تو دونوں ایک ساتھ چلے پہلے مفصل روایتیں گزر چکی ہیں کہ کشتی والوں نے انہیں پہچان کر بغیر کرایہ لئے سوار کرلیا تھا جب کشتی چلی اور بیچ سمندر میں پہنچی تو حضرت خضر نے ایک تختہ اکھیڑ ڈالا پھر اسے اوپر سے ہی جوڑ دیا یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ سے صبر نہ ہوسکا شرط کو بھول گئے اور جھٹ سے کہنے لگے کہ یہ کیا واہیات ہے ؟ لتغرق کا لام لام عاقبت ہے لام تعلیل نہیں ہے جیسے شاعر کے اس قول میں لدوا للموت وبنوا للحزاب یعنی ہر پیدا شدہ جان دار کا انجام موت ہے اور ہر بنائی ہوئی عمارت کا انجام اجڑنا ہے۔ امرا کے معنی منکر اور عجیب کے ہیں۔ یہ سن کر حضرت خضر نے انہیں ان کا وعدہ یاد لایا کہ تم نے اپنی شرط کا خلاف کیا میں تو تم سے پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ تمہیں ان باتوں کا علم نہیں تم خاموش رہنا مجھ سے نہ کہنا نہ سوال کرنا۔ ان کاموں کی مصلحت و حکمت الہٰی مجھے معلوم کراتا ہے اور تم سے یہ چیزیں مخفی ہیں۔ موسیٰ ؑ نے معذرت کی کہ اس بھول کو معاف کرو اور مجھ پر سختی نہ کرو پہلے جو لمبی حدیث مفصل واقعہ کی بیان ہوئی ہے اس میں ہے کہ یہ پہلا سوال فی الواقع بھول چوک سے ہی تھا۔
He said ‘Do not take me to task on account of that which I forgot that is on account of the fact that I was not mindful of submitting to you in the matter and of refraining from showing disapproval of your actions and do not exhaust me do not charge me in this affair of mine with difficulty’ with hardship during my companionship of you in other words treat me throughout it with forgiveness and indulgence.