Indeed for those who fear their Lord without seeing is forgiveness, and a great reward. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
إن الذين يخافون ربهم، فيعبدونه، ولا يعصونه وهم غائبون عن أعين الناس، ويخشون العذاب في الآخرة قبل معاينته، لهم عفو من الله عن ذنوبهم، وثواب عظيم وهو الجنة.
نافرمانی سے خائف ہی مستحق ثواب ہیں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو خوشخبری دے رہا ہے جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتے رہتے ہیں، گو تنہائی میں ہوں جہاں کسی کی نگاہیں ان پر نہ پڑ سکیں تاہم خوف اللہ سے کسی نافرمانی کے کام کو نہیں کرتے نہ اطاعت و عبادت سے جی چراتے ہیں، ان کے گناہ بھی وہ معاف فرما دیتا ہے اور زبردست ثواب اور بہترین اجر عنایت فرمائے گا، جیسے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ جن سات شخصوں کو جناب باری اپنے عرش کا سایہ اس دن دے گا جس دن اس کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا ان میں ایک وہ ہے جسے کوئی مال و جمال والی عورت زنا کاری کی طرف بلائے اور وہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اسے بھی جو اس طرح پوشیدگی سے صدقہ کرے کہ دائیں ہاتھ کے خرچ کی خبر بائیں ہاتھ کو بھی نہ لگے مسند بزار میں ہے کہ صحابہ نے ایک مرتبہ کہا یا رسول اللہ ﷺ ہمارے دلوں کی جو کیفیت آپ کے سامنے ہوتی ہے آپ کے بعد وہ نہیں رہتی آپ نے فرمایا یہ بتاؤ رب کے ساتھ تمہارا کیا خیال رہتا ہے ؟ جواب دیا کہ ظاہر باطن اللہ ہی کو ہم رب مانتے ہیں، فرمایا جاؤ پھر یہ نفاق نہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ تمہاری چھپی کھلی باتوں کا مجھے علم ہے دلوں کے خطروں سے بھی آگاہ ہوں، یہ ناممکن ہے کہ جو خالق ہو وہ عالم نہ ہو، مخلوق سے خالق بیخبر ہو، وہ تو بڑا باریک بین اور بیحد خبر رکھنے والا ہے۔ بعد ازاں اپنی نعمت کا اظہار کرتا ہے کہ زمین کو اس نے تمہارے لئے مسخر کردیا وہ سکون کے ساتھ ٹھہری ہوئی ہے ہل جل کر تمہیں نقصان نہیں پہنچاتی، پہاڑوں کی میخیں اس میں گاڑ دی ہیں، پانی کے چشمے اس میں جاری کردیئے ہیں، راستے اس میں مہیا کردیئے ہیں، قسم قسم کے نفع اس میں رکھ دیئے ہیں پھل اور اناج اس میں سے نکل رہا ہے، جس جگہ تم جانا چاہو جاسکتے ہو طرح طرح کی لمبی چوڑی سود مند تجارتیں کر رہے ہو، تمہاری کوششیں وہ بار آور کرتا ہے اور تمہیں ان اسباب سے روزی دے رہا ہے، معلوم ہوا کہ اسباب کے حاصل کرنے کی کوشش توکل کے خلاف نہیں۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے اگر تم اللہ کی ذات پر پورا پورا بھرسہ کرو تو وہ تمہیں اس طرح رزق دے جس طرح پرندوں کو دے رہا ہے کہ اپنے گھونسلوں سے خالی پیٹ نکلتے ہیں اور آسودہ حال واپس جاتے ہیں، پس ان کا صبح شام آنا جانا اور رزق کو تلاش کرنا بھی توکل میں داخل سمجھا گیا کیونکہ اسباب کا پیدا کرنے والا انہیں آسان کرنے والا وہی رب واحد ہے، اسی کی طرف قیامت کے دن لوٹنا ہے، حضرت ابن عباس وغیرہ تو (مناکب) سے مراد راستے کونے اور ادھر ادھر کی جگہیں لیتے ہیں، قتادہ وغیرہ سے مروی ہے کہ مراد پہاڑ ہیں۔ حضرت بشیر بن کعب ؒ نے اس آیت کی تلاوت کی اور اپنی لونڈی سے جس سے انہیں اولاد ہوئی تھی فرمایا کہ اگر (مناکب) کی صحیح تفسیر تم بتادو تو تم آزاد ہو اس نے کہا مراد اس سے پہاڑ ہیں آپ نے حضرت ابو درداء ؓ سے پوچھا جواب ملا کہ یہ تفسیر صحیح ہے۔
Assuredly those who fear their Lord in secret while they are absent from people’s eyes being obedient to Him in secret such that openly before people it is all the more likely that they fear their Lord — there will be for them forgiveness and a great reward namely Paradise.