تفسیر ابن کثیر
Tafsir Ibn Kathir —
حافظ ابن کثیر
مؤمن کی تعریف فرمان ہے کہ احسان اور ایمان کے ساتھ ہی ساتھ نیک اعمال اور پھر اللہ کی ہیبت سے تھرتھرانا اور کانپتے رہنا یہ ان کی صفت ہے۔ یہ ان کی صفت ہے حسن ؒ فرماتے ہیں کہ مومن نیکی اور خوف الٰہی کا مجموعہ ہوتا ہے۔ منافق برائی کے ساتھ نڈر اور بےخوف ہوتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شرعی اور فطری آیات اور نشانیوں پر یقین رکھتے ہیں جیسے حضرت مریم (علیہا السلام) کا وصف بیان ہوا ہے کہ وہ اپنے رب کے کلمات اور اس کی کتابوں کا یقین رکھتی تھیں اللہ کی قدرت قضا اور شرع کا انہیں کامل یقین تھا۔ اللہ کے ہر امر کو وہ محبوب رکھتے ہیں اللہ کے منع کردہ ہر کام کو وہ ناپسند رکھتے ہیں، ہر خبر کو وہ سچ مانتے ہیں وہ موحد ہوتے ہیں شرک سے بیزار رہتے ہیں، اللہ کو واحد اور بےنیاز جانتے ہیں اسے بےاولاد اور بیوی کے بغیر مانتے ہیں، بینظیر اور بےکفو سمجھتے ہیں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے اللہ کے نام پر خیراتیں کرتے ہیں لیکن خوف زدہ رہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو قبول نہ ہوئی ہو۔ حضرت عائشہ ؓ نے حضور اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کیا یہ وہ لوگ ہیں جن سے زنا، چوری، اور شراب خواری ہوجاتی ہے ؟ لیکن ان کے دل میں خوف الٰہی ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا اے صدیق کی لڑکی یہ نہیں بلکہ یہ وہ ہیں جو نمازیں پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، صدقے کرتے ہیں، لیکن قبول نہ ہونے سے ڈرتے ہیں، یہی ہیں جو نیکیوں میں سبقت کرتے ہیں (ترمذی) اس آیت کی دوسری قرأت یاتون ما اتوا بھی ہے یعنی کرتے ہیں جو کرتے ہیں لیکن دل ان کے ڈرتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس ابو عاصم گئے۔ آپ نے مرحبا کہا اور کہا برابر آتے کیوں نہیں ہو ؟ جواب دیا اس لئے کہ کہیں آپ کو تکلیف نہ ہو لیکن آج میں ایک آیت کے الفاظ کی تحقیق کے لئے حاضر ہوا ہوں آیت (وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ 60ۙ) 23۔ المؤمنون :60) ہیں ؟ آپ نے فرمایا کیا ہونا تمہارے لئے مناسب ہے میں نے کہا آخر کے الفاظ اگر ہوں تو گویا میں نے ساری دنیا پالی۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ خوشی مجھے ہوگی آپ نے فرمایا پھر تم خوش ہوجاؤ۔ واللہ میں نے اسی طرح انہی الفاظ کو پڑھتے ہوئے رسول ﷺ کو سنا ہے۔ اس کا ایک راوی اسماعیل بن مسلم مکی ضعیف ہے۔ ساتوں مشہور قرأتوں اور جمہور کی قرأت میں وہی ہے جو موجودہ قرآن میں ہے اور معنی کی رو سے بھی زیادہ ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ انہیں سابق قرار دیا ہے اور اگر دوسری قرأت کو لیں تو یہ سابق نہیں بلکہ ہیں واللہ اعلم۔
فی ظلال القرآن
Fi Zilal al-Quran —
سید ابراہیم قطب
ان الذین سبقون (آیت نمبر 57 تا 61)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی دل پر ایمان کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ اس کا احساس تیز ہوجاتا ہے ۔ انتہائی خوف اور حد درجہ احتیاط اس کے دل میں پیدا ہوجاتی ہے اور اس دنیا میں انسان کمال اور بلندیوں کے بارے میں سوچتا ہے۔ آخرت کی فکر کرتا ہے اگر چہ وہ اس دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ فرائض و واجبات پر عمل پیرا ہوتا ہے یعنی یہاں رجانیت اختیار نہیں کرتا۔
ذرا ملاحظہ کیجئے۔۔ یہ مومن اللہ کے خوف کے مارے میں کانپ رہے ہیں ۔ نہایت احتیاط سے زندگی بسر کررہے ہیں۔
اللہ کی آیات پر ایمان لائے ہوئے ہیں ۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کررہے۔ اللہ کی طرف سے عائد شدہ فرائض اور واجبات ادا کرتے چلے جاتے ہیں۔ دیگر تمام عبادات میں حدد استطاعت تک مشغول ہیں ۔ لیکن ان سب کاموں کے باوجود والذین یو تون رجعون (23 : 60) “۔ جو کچھ بھی دیتے ہیں اور دل ان کے اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہیــــ“۔ ان کو احساس ہے کہ اللہ کے معاملے میں ان سے ضرور کوئی نہ کوئی کوتاہی ہوگئی ہوگی ۔ حالانکہ وہ مقدر بھر بندگی کرتے رہے ہیں مگر ان کی نظروں میں ان کا عمل قلیل ہوتا ہے ۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : اے رسول اللہ ﷺ ولذین وجفۃ (23 : 60) ” وہ لوگ جو دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں اور دل ان کے کانپ رہے ہوتے ہیں “ سے کیا وہ شخص مراد ہے جو چوری کرتا ، زنا کرتا ، اور شراب پیتا ہے لیکن پھر وہ اللہ سے ڈرتا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا نہیں صدیق کی بیٹی بلکہ مراد وہ شخص ہے جو نماز پڑھتا ہے ، جو روزے رکھتا ہے ، جو اپنا مال خرچ کرتا ہے اور پھر بھی اللہ سے ڈرتا ہے۔ (ترمذی)
ایک مومن کا دل کا شعور رکھتا ہے کہ اللہ کا ہاتھ اس کے اوپر ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ ہر سانس میں اللہ کی رحمتیں اس پر بارش کی طرح برستی رہی ہیں ۔ صرف دل کی حرکت پر ہی غور کرلو کہ کس قدر عظیم رحمت ہے اس لے مومن اپنی بندگی اور اطاعت کو کم سمجھتا ہے کہ اللہ کے رحم و کرم کے مقابلے میں اس کی جانب سے بندگی کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ اپنے وجود کے ذرے ذرے میں اللہ کے جلال اور عظمت کو پاتا ہے ۔ اس کے شعور میں یہ بات اچھی طرح بیٹھی ہوئی ہوتی ہے کہ ہر چیز اللہ کے ہاتھ میں ہی اور اسی لیے وہ ہر وقت خائف رہتا ہے ، کانپتا رہتا ہے۔ اسے یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ اچانک وہ اللہ کے سامنے پیس ہوا اور اس کی تفصیرات کی گٹھڑی پیش ہو۔ اور اس کے سامنے کھلے اور نتیجہ یہ سامنے آئے کہ اس نے عبادت کا حق ادا نہ کیا ہو اور اللہ کے انعامات و کرامات کا شکر اس نے ادا نہ کیا ہو تو اس کا پھر کیا حال ہوگا اور کیا جواب ہوگا ؟
ایسے لوگ ہی دراصل بھلائی کے کاموں میں آگے بڑھتے ہیں اور ایسے ہی لوگ بھلائی میں سب سے آگے ہوتے ہیں اور ایسے ہی لوگ اسلام کے ہر دل دستے کا کام کرتے ہیں ۔ بیدار مغز ، فعال اور آگے بڑھنے والے مطیع فرمان۔ ان کے مقابلے میں وہ لوگ کسی کام کے نہیں ہوتے جو عیش و طرب میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں ۔ جو سخت غفلت میں ہوتے ہیں ، جو اس میں ہوتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے بالا رادہ مراعات یافتہ ہیں ۔ ان کے لیے بھلائی ہی بھلائی ہے ۔ اس طرح غافل ہیں کہ جس طرح شکار اپنی غفلت میں چر رہا ہوتا ہے لیکن دراصل وہ اپنے پھندے کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کو غذا مل گئی اچانک پھندے میں گرفتار ہوجاتا ہے ۔ لوگوں کے اندر بیشمار لوگ ہیں جو ایسے پھندے میں گرفتار ہیں ، خوشحالی ان کو غافل کردیتی ہے۔ اللہ کی نعمتیں ان کو برے کاموں میں مشغول کردیتی ہیں۔ مالداری ان کو سرکشی پر آمادہ کرتی ہے ، غرور ان کو آپے سے باہر کردیتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے برے انجام کا شکار ہوجاتے ہیں ۔
یہ ہے وہ بیداری جو اسلام ہر زندہ دل انسان میں بیدا کرتا ہے اور جب ایمان دلوں میں بیٹھ جاتا ہے تو وہ دلوں میں بیداری اور تقویٰ کا ابھارتا رہتا ہے ۔ یہ کوئی ایسا مقام نہیں ہے جسے حاصل نہ کیا جاسکتا ہو۔ یہ کوئی ایسی حالت نہیں ہے جس میں عام آدمی داخل نہ ہو سکتا ہو ۔ بس صرف یہ احساس و شعور پید اکرنا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے ہم اس کے ساتھ مربوط ہیں ۔ ہمارے ظاہر و باطن سے وہ اچھی طرح خبردار ہے۔ یہ احساس اور شعور پیدا کرنا ، انسان کے حد استطاعت میں ہے بشرطیکہ ایمان کا چراغ قلب میں روشن ہوجائے۔