To the extent that when We seized the wealthy among them with punishment, they immediately began imploring. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
حتى إذا أخذنا المترفين وأهل البطر منهم بعذابنا، إذا هم يرفعون أصواتهم يتضرعون مستغيثين.
آسان شریعت اللہ تعالیٰ نے شریعت آسان رکھی ہے۔ ایسے احکام نہیں دئیے جو انسانی طاقت سے خارج ہوں۔ پھر قیامت کے دن وہ اعمال کا حساب لے گا جو سب کے سب کتابی صورت میں لکھے ہوئے موجود ہوں گے۔ یہ نامہ اعمال صحیح صحیح طور پر ان کا ایک ایک عمل بتادے گا۔ کسی طرح کا ظلم کسی پر نہ کیا جائے گا کوئی نیکی کم نہ ہوگی ہاں اکثر مومنوں کی برائیاں معاف کردی جائیں گی۔ لیکن مشرکوں کے دل قرآن سے بہکے اور بھٹکے ہوئے ہیں۔ اس کے سوا بھی ان کی اور بد اعمالیاں بھی ہیں جیسے شرک وغیرہ جسے یہ دھڑلے سے کررہے ہیں۔ تاکہ ان کی برائیاں انہیں جہنم سے دور نہ رہنے دیں۔ چناچہ وہ حدیث گزر چکی جس میں فرمان ہے کہ انسان نیکی کے کام کرتے کرتے جنت سے صرف ہاتھ بھر کے فاصلے پر رہ جاتا ہے جو اس پر تقدیر کا لکھا غالب آجاتا اور بداعمالیاں شروع کردیتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جہنم واصل ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب ان میں سے آسودہ حال دولت مند لوگوں پر عذاب الٰہی آپڑتا ہے تو اب وہ فریاد کرنے لگتے ہیں۔ سورة مزمل میں فرمان ہے کہ مجھے اور ان مالدار جھٹلانے والوں کو چھوڑ دیجئے انہیں کچھ مہلت اور دیجئے ہمارے پاس بیڑیاں بھی ہیں اور جہنم بھی ہے اور گلے میں اٹکنے والا کھانا ہے اور دردناک سزا ہے۔ اور آیت میں ہے (كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ قَرْنٍ فَنَادَوْا وَّلَاتَ حِيْنَ مَنَاصٍ) 38۔ ص :3) یعنی ہم نے ان سے پہلے اور بھی بہت سی بستیوں کو تباہ کردیا اس وقت انہوں نے واویلا شروع کی جب کہ وہ محض بےسود تھی۔ یہاں فرماتا ہے آج تم کیوں شور مچا رہے ہو ؟ کیوں فریاد کررہے ہو ؟ کوئی بھی تمہیں آج کام نہیں آسکتا تم پر عذاب الٰہی آپڑے اب چیخنا چلانا سب بےسود ہے۔ کون ہے ؟ جو میرے عذابوں کے مقالبے میں تمہاری مدد کرسکے ؟ پھر ان کا ایک بڑا گناہ بیان ہو رہا ہے کہ یہ میری آیتوں کے منکر تھے انہیں سنتے تھے اور ٹال جاتے تھے، بلائے جاتے تھے لیکن انکار کردیتے تھے توحید کا انکار کرتے تھے شرک پر عقیدہ رکھتے تھے حک تو بلندوبرتر اللہ ہی کا چلتا ہے مستکبرین دال ہے ان کے حق سے ہٹنے اور حق کا انکار کرنے سے آیت ہے کہ یہ اس وقت تکبر کرتے تھے اور حق اور اہل حق کو حقیر سمجھتے تھے۔ اس معنی کی رو سے بہ کے ضمیر کا مرجع یا تو حرم ہے یعنی مکہ کہ یہ اس میں بیہودہ بکواس بکتے تھے۔ یا قرآن ہے جسے یہ مذاق میں اڑاتے تھے کبھی شاعری کہتے تھے کبھی کہانت وغیرہ۔ یا خود آنحضرت ﷺ ہیں کہ راتوں کو بیکار بیٹھے ہوئے اپنی گپ شب میں حضور ﷺ کو کبھی شاعر کہتے، کبھی کاہن کہتے، کبھی جادوگر کہتے، کبھی جھوٹا کہتے، کبھی مجنون بتلاتے۔ حالانکہ حرم اللہ کا گھر ہے قرآن اللہ کا کلام ہے حضور ﷺ اللہ کے رسول ہیں جہنیں اللہ نے اپنی مدد پہنچائی اور مکہ پر قابض کیا۔ ان مشرکین کو وہاں سے ذلیل وپست کرکے نکالا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ یہ لوگ بیت اللہ کی وجہ سے فخر کرتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ وہ اولیاء اللہ ہیں حالانکہ یہ خیال محض وہم تھا ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ مشرکین قریش بیت اللہ پر فخر کرتے تھے اپنے آپ کو اس کا مہتمم اور متولی بتلاتے تھے حالانکہ نہ اسے آباد کرتے تھے نہ اس کا صحیح ادب کرتے تھے امام ابن ابی حاتم ؒ نے یہاں پر بہت کچھ لکھا ہے حاصل سب کا یہی ہے۔
Indeed hattā is for inceptiveness when We seize their affluent ones their wealthy and their leaders with chastisement with the sword on the day of Badr behold! they are supplicating loudly clamouring in supplication. It is then said to them