“So you took them for a mockery until your mocking at them made you forget My remembrance, and you used to laugh at them!” — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
فاشتغلتم بالاستهزاء بهم حتى نسيتم ذكر الله، فبقيتم على تكذيبكم، وقد كنتم تضحكون منهم سخرية واستهزاء.
ناکام آرزو کافر جب جہنم سے نکلنے کی آرزو کریں گے تو انہیں جواب ملے گا کہ اب تو تم اسی میں ذلت کے ساتھ پڑے رہوگے خبردار اب یہ سوال مجھ سے نہ کرنا آہ یہ کلام رحمان ہوگا جو دوزخیوں کو ہر کھیل سے مایوس کردے گا اللہ ہمیں بچائے اے رحمتوں والے اللہ ہمیں اپنے رحم کے دامن میں چھپالے اپنی ڈانٹ ڈپٹ اور غصے سے بچالے آمین حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ جہنمی پہلے تو داروغہ جہنم کو بلائیں گے چالیس سال تک اسے پکارتے رہیں گے لیکن کوئی جواب نہ پائیں گے چالیس برس کے بعد جواب ملے گا کہ تم یہیں پڑے رہو۔ ان کی پکار کی کوئی وقعت اور داروغہ جہنم کے پاس ہوگی نہ اللہ جل وعلا کے پاس۔ پھر براہ راست اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں گے اور کہیں گے کہ اے اللہ ہم اپنی بدبختی کی وجہ سے ہلاک ہوگئے ہم اپنی گمراہی میں ڈوب گئے اے اللہ اب تو ہمیں یہاں سے نجات دے اگر اب بھی ہم یہی برے کام کریں تو جو چاہے سزا کرنا اس کا جواب انہیں دنیا کی دگنی عمر تک نہ دیا جائے گا پھر فرمایا جائے گا کہ رحمت سے دور ہو کر ذلیل وخوار ہو کر اسی دوزخ میں پڑے رہو اور مجھ سے کلام نہ کرو اب یہ محض مایوس ہوجائیں گے اور گدھوں کی طرح چلاتے اور شور مچاتے جلتے اور بھنتے رہے گے اس وقت ان کے چہرے بدل جائیں گے صورتیں مسخ ہوجائیں گی یہاں تک کہ بعض مومن شفاعت کی اجازت لے کر آئیں گے لیکن یہاں کسی کو نہیں پہچانیں گے جہنمی انہیں دیکھ کر کہیں گے کہ میں فلاں ہوں لیکن یہ جواب دیں گے کہ غلط ہے ہم تمہیں نہیں پہچانتے۔ اب دوزخی لوگ اللہ کو پکاریں گے اور وہ جواب پائیں گے جو اوپر مذکور ہوا ہے پھر دوزخ کے دروازے بند کردئیے جائیں گے اور یہ وہیں سڑتے رہیں گے۔ انہیں شرمندہ اور پشیمان کرنے کے لئے ان کا ایک زبردست گناہ پیش کیا جائے گا کہ وہ اللہ کے پیارے بندوں کا مذاق اڑاتے تھے اور ان کی دعاؤں پر دل لگی کرتے تھے وہ مومن اپنے رب سے بخشش و رحمت طلب کرتے تھے اسے رحمن الراحمین کہہ کر پکارتے تھے لیکن یہ اسے ہنسی میں اڑتے تھے اور ان کے بغض میں ذکر رب چھوڑ بیٹھتے تھے اور ان کی عبادتوں اور دعاؤں پر ہنستے تھے جیسے فرمان ہے آیت (اِنَّ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا كَانُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يَضْحَكُوْنَ 29ڮ) 83۔ المطففین :29) یعنی گنہگار ایمانداروں سے ہنستے تھے اور انہیں مذاق میں اڑاتے تھے۔ اب ان سے اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ میں نے اپنے ایماندار صبر گذار بندوں کو بدلہ دے دیا ہے وہ سعادت سلامت نجات و فلاح پاچکے ہیں اور پورے کامیاب ہوچکے ہیں۔
But then you took them as an object of ridicule read sukhriyyan or sikhriyyan a verbal noun meaning ‘mockery’. Among those ridiculed were Bilāl al-Habashī Suhayb al-Rūmī ‘Ammār b. Yāsir and Salmān al-Fārisī; until they made you forget My remembrance which you disregarded as you were engaged in deriding them. Thus these men were the cause of the forgetting which is why this act has been attributed to them and you used to laugh at them.