Ruin is for the deniers on that day! — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
إن الذين خافوا ربهم في الدنيا، واتقوا عذابه بامتثال أوامره واجتناب نواهيه، هم يوم القيامة في ظلال الأشجار الوارفة وعيون الماء الجارية، وفواكه كثيرة مما تشتهيه أنفسهم يتنعمون. يقال لهم: كلوا أكلا لذيذًا، واشربوا شربًا هنيئًا؛ بسبب ما قدمتم في الدنيا من صالح الأعمال. إنا بمثل ذلك الجزاء العظيم نجزي أهل الإحسان في أعمالهم وطاعتهم لنا. هلاك وعذاب شديد يوم القيامة للمكذبين بيوم الجزاء والحساب وما فيه من النعيم والعذاب.
دنیا اور آخرت کے فائدوں کا موازنہ : اوپر چونکہ بدکاروں کی سزاؤں کا بیان ہوا تھا یہاں نیک کاروں کی جزا کا بیان ہو رہا ہے کہ جو لوگ متقی پرہیزگار تھے اللہ کے عبادت گزار تھے فرائض اور واجبات کے پابند تھے۔ اللہ کی نافرمانیوں سے حرام کاریوں سے بچتے تھے وہ قیامت کے دن جنتوں میں ہوں گے، جہاں قسم قسم کی نہریں چل رہی ہیں۔ گنہگار سیاہ بدبو دار دھوئیں میں گھرے ہوئے ہوں گے اور یہ نیک کردار جنتوں کے گھنے ٹھنڈے اور پرکیف سایوں میں بہ آرام تمام لیٹے بیٹھے ہوں گے۔ سامنے صاف شفاف چشمے اپنی پوری پوری روانی سے جاری ہیں۔ قسم قسم کے پھل میوے اور ترکاریاں موجود ہیں، جسے جب جی چاہے کھائیں، نہ روک ٹوک ہے نہ کمی اور نقصان کا اندیشہ ہے، نہ فنا ہونے اور ختم ہونے کا خطرہ ہے، پھر حوصلہ بڑھانے اور دل میں خوشی کو دو بالا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بار بار فرمایا جاتا ہے کہ اے میرے پیارے بندو تم بہ خوشی اور بافراغت لذیذ پر کیف طعام خوب کھاؤ پیو، ہم ہر نیک کار پرہیزگار مخلص انسان کو اسی طرح بھلا بدلہ اور نیک جزا دیتے ہیں۔ ہاں جھٹلانے والوں کی تو آج بڑی خرابی ہے ان جھٹلانے والوں کو دھمکایا جاتا ہے کہ اچھا دنیا میں تو تم کچھ کھا پی لو، برت برتالو، فائدے اٹھالو، عنقریب یہ نعمتیں بھی فنا ہوجائیں گی اور تم بھی موت کے گھاٹ اترو گے۔ پھر تمہارا نتیجہ جہنم ہی ہے جس کا ذکر اوپر گذر چکا ہے۔ تمہاری بد اعمالیوں اور سیہ کاریوں کی سزا ہمارے پاس تیار ہے کوئی مجرم ہماری نگاہ سے باہر نہیں، قیامت کو، ہمارے نبی ﷺ کو ہماری وحی کو نہ ماننے والا اسے جھوٹا جاننے والا قیامت کے دن سخت نقصان میں اور پورے خسارے میں ہوگا۔ اسی کی سخت خرابی ہوگی۔ جیسے اور جگہ ارشد ہے آیت (نُمَـتِّعُهُمْ قَلِيْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ اِلٰى عَذَابٍ غَلِيْظٍ 24) 31۔ لقمان :24) دنیا میں ہم انہیں تھوڑا سا فائدہ پہنچا دیں گے پھر تو ہم انہیں سخت عذاب کیطرف بےبس کردیں گے اور جگہ فرمان ہے (قُلْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ 69) 10۔ یونس :69) یعنی اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والا کامیاب نہیں ہوسکتے۔ دنیا میں یونہی سا فائدہ اٹھا لیں پھر ان کا لوٹنا تو ہماری ہی طرف ہے، ہم انہیں ان کے کفر کی سزا میں سخت تر عذاب چکھائیں گے۔ پھر فرمایا کہ ان نادان منکروں کو جب کہا جاتا ہے کہ آؤ اللہ کے سامنے جھک تو لو، جماعت کے ساتھ نماز تو ادا کرلو تو ان سے یہ بھی نہیں ہوسکتا، اس سے بھی جی چراتے ہیں بلکہ اسے حقارت سے دیکھتے ہیں اور تکبر کے ساتھ انکار کردیتے ہیں۔ ان کے لئے جو جھٹلانے میں عمریں گذار دیتے ہیں قیامت کے دن بڑی مصیبت ہوگی۔ پھر فرمایا جب یہ لوگ اس پاک کلام مجید پر بھی ایمان نہیں لاتے تو پھر کس کلام کو مانیں گے ؟ جیسے اور جگہ ہے (فَبِاَيِّ حَدِيْثٍۢ بَعْدَ اللّٰهِ وَاٰيٰتِهٖ يُؤْمِنُوْنَ) 45۔ الجاثية :6) یعنی اللہ تعالیٰ پر اور اسکی آیتوں پر جب یہ ایمان نہ لائے تو اب کس بات پر ایمان لائیں گے ؟ ابن ابی حاتم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اس سورت کی اس آیت کو پڑھے اسے اس کے جواب میں (امنت باللہ وبما انزل) کہنا چاہئے۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ پر اور اس کی اتاری ہوئی کتابوں پر ایمان لایا۔ یہ حدیث سورة قیامہ کی تفسیر میں بھی گذر چکی ہے، سورة والمرسلات کی تفسیر ختم ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ انتیسویں پارے کی تفسیر بھی پوری ہوئی۔ یہ محض اسی کا فضل و کرم اور لطف و رحم ہے۔ فالحمد للہ۔
Woe to the deniers on that day!