And leave them to Me – these wealthy deniers – and give them some respite. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
دعني -أيها الرسول- وهؤلاء المكذبين بآياتي أصحاب النعيم والترف في الدنيا، ومهِّلهم زمنًا قليلا بتأخير العذاب عنهم حتى يبلغ الكتاب أجله بعذابهم.
نبی اکرم ﷺ کی حوصلہ افزائی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی کو کفار کی طعن آمیز باتوں پر صبر کرنے کی ہدایت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ان کے حال پر بغیر ڈانٹ ڈپٹ کے ہی چھوڑ دے، میں خد ان سے نمٹ لوں گا۔ میرے غضب اور غصے کے وقت دیکھ لوں گا کہ کیسے یہ لوگ نجات پاتے ہیں۔ ہاں ان کے مالدار خوش حال لوگوں کو جو بےفکر ہیں اور تجھے ستانے کے لئے باتیں بنا رہے ہیں جن پر دوہرے حقوق ہیں مال کے اور جان کے اور یہ ان میں سے ایک بھی ادا نہیں کرتے تو ان سے بےتعلق ہوجا پھر دیکھ کہ میں ان کے ساتھ کیا کرتا ہوں تھوڑی دیر دنیا میں تو چاہے یہ فائدہ اٹھا لیں گے مگر انجام کار عذابوں میں پھنسیں گے اور عذاب بھی کونسے ؟ سخت قید و بند کے، بدترین بھڑکتی ہوئی نہ بجھنے والی اور نہ کم ہونے والی آگ کے اور ایسا کھانا جو حلق میں جا کر اٹک جائے نہ نگل سکیں نہ اگل سکیں اور بھی طرح طرح کے المناک عذاب ہوں گے، پھر وہ وقت بھی ہوگا جب زمینوں میں اور پہاڑوں پر زلزلہ طاری ہوگا سخت اور بڑی چٹانوں والے پہاڑ آپس میں ٹکرا ٹکرا کر چور چور ہوگئے ہوں گے جیسے بھربھری ریت کے بکھرے ہوئے ذرے ہوں جنہیں ہوا ادھر سے ادھر لے جائے گی اور نام و نشان تک مٹا دے گی اور زمین ایک چٹیل صاف میدان کی طرح رہ جائے گی جس میں کہیں اونچ نیچ نظر نہ آئے گی، پھر فرماتا ہے اے لوگو اور خصوصاً اے کافرو ہم نے تم پر گواہی دینے والا اپنا سچا رسول تم میں بھیج دیا ہے جیسے کہ فرعون کے پاس بھی ہم نے اپنے احکام کے پہنچا دینے کے لئے اپنے ایک رسول ﷺ کو بھیجا تھا، اس نے جب اس رسول ﷺ کی نہ مانی تو تم جانتے ہو کہ ہم نے اسے بری طرح برباد کیا اور سختی سے پکڑ لیا، اسی طرح یاد رکھو اگر اس نبی ﷺ کی تم نے بھی نہ مانی تو تمہاری خیر نہیں اللہ کے عذاب تم پر بھی اتر آئیں گے اور نیست و نابود کردیئے جاؤ گے کیونکہ یہ رسول ﷺ رسولوں کے سردار ہیں ان کے جھٹلانے کا وبال بھی اور و بالوں سے بڑا ہے۔ اس کے بعد کی آیت کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ اگر تم نے کفر کیا تو بتاؤ تو سہی کہ اس دن کے عذابوں سے کیسے نجات حاصل کرو گے ؟ جس دن کی ہیبت خوف اور ڈربچوں کو بوڑھا کر دے گا اور دوسرے معنی یہ کہ اگر تم نے اتنے بڑے ہولناک دن کا بھی کفر کیا اور اس کے بھی منکر رہے تو تمہیں تقویٰ اور اللہ کا ڈر کیسے حاصل ہوگا ؟ گو یہ دونوں معنی یہ کہ اگر تم نے اتنے بڑے ہولناک دن کا بھی کفر کیا اور اس کے بھی منکر رہے تو تمہیں تقویٰ اور اللہ کا ڈر کیسے حاصل ہوگا ؟ گو یہ دونوں معنی نہایت عمدہ ہیں لیکن اول اولیٰ ہیں واللہ اعلم۔ طبرانی میں ہے رسول مقبول ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا یہ قیامت کا دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ حضرت آدم ؑ سے فرمائے گا اٹھو اور اپنی اولاد میں سے دوزخیوں کو الگ الگ کردہ پوچھیں گے اے اللہ کتنی تعداد میں سے کتنے ؟ حکم ہوگا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے یہ سنتے ہی مسلمانوں کے تو ہوش اڑ گئے اور گھبرا گئے، حضور ﷺ بھی ان کے چہرے دیکھ کر سمجھ گئے اور بطور تشفی کے فرمایا سنو بنو آدم بہت سے ہیں یاجوج ماجوج بھی اولاد آدم میں سے ہیں جن میں سے ہر ایک نسلی تسلسل میں خاص اپنی صلبی اولاد ایک ایک ہزار چھوڑ کرجاتا ہے پس ان میں اور ان حبشیوں میں مل کر دوزخمیوں کی یہ تعداد ہوجائے گی اور جنت تمہارے لئے اور تم جنت کے لئے ہوجاؤ گے، یہ حدیث غریب ہے اور سورة حج کی تفسیر کے شروع میں اس جیسی احادیث کا تذکرہ گذر چکا ہے اس دن کی ہیبت اور دہشت کے مارے آسمان بھی پھٹ جائے گا، بعض نے ضمیر کا مرجع اللہ کی طرف کیا ہے لیکن یہ قوی نہیں اس لئے کہ یہاں ذکر ہی نہیں، اس دن کا وعدہ یقینا سچ ہے اور ہو کر ہی رہے گا اس دن کے آنے میں کوئی شک نہیں۔
And leave Me to deal with the deniers wa’l-mukadhdhibīna is a supplement to the direct object or it is an object of accompaniment; the meaning is ‘I will avail you of them’ they being the doughty leaders of Quraysh those enjoying affluence and respite them a little while — they were killed soon afterwards at Badr.