And to give them control in the land, and to show Firaun and Haman and their armies what they fear from them. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
ونمكن لهم في الأرض، ونجعل فرعون وهامان وجنودهما يرون من هذه الطائفة المستضعفة ما كانوا يخافونه مِن هلاكهم وذهاب ملكهم، وإخراجهم من ديارهم على يد مولود من بني إسرائيل.
حروف مقطعہ کا بیان پہلے ہوچکا ہے۔ یہ آیتیں ہیں واضح جلی روشن صاف اور کھلے قرآن کی تمام کاموں کی اصلیت اب گذشتہ اور آئندہ کی خبریں اس میں ہیں اور سب سچی اور کھلی۔ ہم تیرے سامنے موسیٰ اور فرعون کا سچا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ جیسے اور آیت میں ہے ہم تیرے سامنے بہترین واقعہ بیان کرتے ہیں۔ اس طرح کہ گویا تو اس کے ہونے کے وقت وہیں موجود تھا۔ فرعون ایک متکبر سرکش اور بددماغ انسان تھا۔ اس نے لوگوں پر بری طرح قبضہ جمارکھا تھا اور انہیں آپس میں لڑوا لڑوا کر ان میں پھوٹ اور اختلاف ڈلوا کر انہیں کمزور کرکے خود ان پر جبر وتعدی کے ساتھ سلطنت کر رہا تھا۔ خصوصا بنی اسرائیل کو تو اس ظالم نے نیست ونابود کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اور دن رات یہ بےچارے بیکار میں گھیسٹے جاتے تھے۔ اس پر بھی اس کا غصہ ٹھنڈانہ ہوتا تھا یہ ان کی نرینہ اولاد کو قتل کروا ڈالتا تھا۔ تاکہ یہ افرادی قوت سے محروم رہیں قوت والے نہ ہوجائیں اور اس لئے بھی کہ یہ ذلیل وخوار رہیں اور اس لئے بھی کہ اسے ڈر تھا کہ ان میں سے ایک بچے کے ہاتھوں میری سلطنت تباہ ہونے والی ہے۔ بات یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑ مصر کی حکومت میں سے مع اپنی بیوی صاحبہ حضرت سارہ کے جا رہے تھے اور یہاں کے سرکش بادشاہ نے حضرت سارہ کو لونڈی بنانے کے لئے آپ سے چھین لیا جنہیں اللہ نے اس کافر سے محفوظ رکھا اور اسے آپ پر دست درازی کرنے کی قدرت ہی حاصل نہ ہوئی تو اس وقت حضرت ابراہیم نے بطور پیش گوئی فرمایا تھا کہ تیری اولاد میں سے ایک کی اولاد کے لڑکے کے ہاتھوں ملک مصر اس قوم سے جاتا رہے گا اور انکا بادشاہ اس کے سامنے ذلت کے ساتھ ہلاک ہوگا۔ چونکہ یہ روایت چلی آرہی تھی اور ان کے درس میں ذکر ہوتا رہتا تھا جسے قبطی بھی سنتے تھے جو فرعون کی قوم تھی، انہوں نے دربار میں مخبری کی جب سے فرعون نے یہ ظالمانہ اور سفاکانہ قانوں بنادیا کہ بنو اسرائیل کے بچے قتل کردئے جائیں اور ان کی بچیاں چھوڑ دی جائیں۔ لیکن رب کو جو منظور ہوتا ہے وہ اپنے وقت پر ہو کر ہی رہتا ہے حضرت موسیٰ زند رہ گئے اور اللہ نے آپ کے ہاتھوں اس عاری سرکش کو ذلیل وخوار کیا، فالحمدللہ چناچہ فرمان ہے کہ ہم نے ان ضعیفوں اور کمزوروں پر رحم کرنا چاہا۔ ظاہر ہے کہ اللہ کی چاہت کا پورا ہونا یقینی ہے۔ جیسے فرمایا آیت (وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِيْنَ كَانُوْا يُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا ۭ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ڏ بِمَا صَبَرُوْا ۭوَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهٗ وَمَا كَانُوْا يَعْرِشُوْنَ01307) 7۔ الاعراف :137) آپ نے اس گری پڑی قوم کو ان کی تمام چیزوں کا مالک بنادیا۔ فرعون نے اپنی تمام ترطاقت کا مظاہرہ کیا لیکن اسے اللہ کی طاقت کا اندازہ ہی نہ تھا۔ آخر اللہ کا ارادہ غالب رہا اور جس ایک بچے کی خاطر ہزاروں بےگناہ بچوں کا خون ناحق بہایا تھا۔ اس بچے کو قدرت نے اسی کی گود میں پلوایا، پروان چڑھایا، اور اسی کے ہاتھوں اسکا اسکے لشکر کا اور اسکے ملک ومال کا خاتمہ کرایا تاکہ وہ جان لے اور مان لے کہ وہ اللہ کا ذلیل مسکین بےدست وپا غلام تھا اور رب کی چاہت پر کسی کی چاہت غالب نہیں آسکتی۔ حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کو اللہ نے مصر کی سلطنت دی اور فرعوں جس سے خائف تھا وہ سامنے آگیا اور تباہ و برباد ہوا۔ فالحمد للہ
and to establish them in the land the land of Egypt and Syria and to show Pharaoh and Hāmān and their hosts a variant reading has wa-yarā Fir‘awnu wa-Hāmānu wa-junūduhumā ‘so that Pharaoh and Hāmān and their hosts might see’ with all three nouns in the nominative from them that of which they were apprehensive that which they feared of the new-born Israelite who would bring about the end of their kingdom.