Said one who had knowledge of the Book, “I will bring it in your majesty’s presence before you bat your eyelid”; then when he saw it set in his presence*, Sulaiman said, “This is of the favours of my Lord; so that He may test me whether I give thanks or am ungrateful; and whoever gives thanks only gives thanks for his own good; and whoever is ungrateful – then indeed my Lord is the Independent (Not Needing Anything), the Owner Of All Praise.” (A miracle which occurred through one of Allah’s friends.) — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
قال الذي عنده علم من الكتاب: أنا آتيك بهذا العرش قبل ارتداد أجفانك إذا تحرَّكَتْ للنظر في شيء. فأذن له سليمان فدعا الله، فأتى بالعرش. فلما رآه سليمان حاضرًا لديه ثابتًا عنده قال: هذا مِن فضل ربي الذي خلقني وخلق الكون كله؛ ليختبرني: أأشكر بذلك اعترافًا بنعمته تعالى عليَّ أم أكفر بترك الشكر؟ ومن شكر لله على نعمه فإنَّ نَفْعَ ذلك يرجع إليه، ومن جحد النعمة وترك الشكر فإن ربي غني عن شكره، كريم يعم بخيره في الدنيا الشاكر والكافر، ثم يحاسبهم ويجازيهم في الآخرة.
بلقیس کو دوبارہ پیغام نبوت ملا جب قاصد پہنچتا ہے اور بلقیس کو دوبارہ پیغام نبوت پہنچاتا ہے تو وہ سمجھ لیتی ہے اور کہتی ہے واللہ یہ سچے پیغمبر ہیں ایک پیغمبر کا مقابلہ کر کے کوئی پنپ نہیں سکتا۔ اسی وقت دوبارہ قاصد بھیجا کہ میں اپنی قوم کے سرداروں سمیت حاضر خدمت ہوتی ہوں تاکہ خود آپ سے مل کر دینی معلومات حاصل کروں اور آپ سے اپنی تشفی کرلوں یہ کہلوا کر یہاں اپنا نائب ایک کو بنایا۔ سلطنت کے انتظامات اس کے سپرد کئے اپنا لاجواب بیش قیمت جڑاؤ تخت جو سونے کا تھا سات محلوں میں مقفل کیا اور اپنے نائب کو اسکی حفاطت کی خاص تاکید کی اور بارہ ہزار سردار جن میں سے ہر ایک کے تحت ہزاروں آدمی تھے۔ اپنے ساتھ لئے اور ملک سلیمان کی طرف چل دی۔ جنات قدم قدم اور دم دم کی خبریں آپ کو پہنچاتے رہتے تھے۔ جب آپکو معلوم ہوا کہ وہ قریب پہنچ چکی ہے تو آپ نے اپنے دربار میں جس میں جن و انس سب موجود تھے فرمایا کوئی ہے جو اسکے تخت کو اسکے پہنچنے سے پہلے یہاں پہنچا دے ؟ کیونکہ جب وہ یہاں آجائیں گی اور اسلام میں داخل ہوجائیں پھر اس کا مال ہم پر حرام ہوگا۔ یہ سن کر ایک طاقتور سرکش جن جس کا نام کوزن تھا اور جو مثل ایک بڑے پہاڑ کے تھا بول پڑا کہ اگر آپ مجھے حکم دیں تو آپ دربار برخواست کریں اس سے پہلے میں لا دیتا ہوں۔ آپ لوگوں کے فیصلے کرنے اور جھگڑے چکانے اور انصاف دینے کو صبح سے دوپہر تک دربارعام میں تشریف رکھا کرتے تھے۔ اس نے کہا میں اس تخت کے اٹھا لانے کی طاقت رکھتا ہوں اور ہوں بھی امانت دار۔ اس میں کوئی چیز نہیں چراؤں گا : حضرت سلیمان ؑ نے فرمایا میں چاہتا ہوں اس سے بھی پہلے میرے پاس وہ پہنچ جائے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اللہ حضرت سلیمان بن داؤد ؑ کی تخت کے منگوانے سے عرض یہ تھی کہ اپنے ایک زبردست معجزے کا اور پوری طاقت کا ثبوت بلقیس کو دکھائیں کہ اس کا تخت جسے اس نے سات مقفل مکانوں میں رکھا تھا وہ اس کے آنے سے پہلے دربار سلیمانی میں موجود ہے۔ (وہ غرض نہ تھی جو اوپر روایت قتادہ میں بیان ہوئی) حضرت سلیمان کے اس جلدی کے تقاضے کو سن کر جس کے پاس کتابی علم تھا وہ بولا۔ ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ یہ آصف تھے حضرت سلیمان کے کاتب تھے ان کے باپ کا نام برخیا تھا یہ ولی اللہ تھے اسم اعظم جانتے تھے۔ پکے مسلمان تھے بنو اسرائیل میں سے تھے مجاہد کہتے ہیں ان کا نام اسطوم تھا۔ بلیخ بھی مروی ہے ان کا لقب ذوالنور تھا۔ عبداللہ لھیعہ کا قول ہے یہ خضر تھے لیکن یہ قول بہت ہی غریب ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنی نگاہ دوڑائیے جہاں تک پہنچے نظر کیجئے ابھی آپ دیکھ ہی رہے ہوں گے کہ میں اسے لادوں گا۔ پس حضرت سلیمان نے یمن کی طرف جہاں اس کا تخت تھا نظر کی ادھر یہ کھڑے ہو کر وضو کرکے دعا میں مشغول ہوئے اور کہا دعا (یا ذالجلال والاکرام یا فرمایا یا الھنا والہ کل شی الھا واحدا لا الہ الاانت ائتنی بعرشھا) اسی وقت تخت بلقیس سامنے آگیا۔ اتنی ذرا سی دیر میں یمن سے بیت المقدس میں وہ تخت پہنچ گیا اور لشکر سلیمان کے دیکھتے ہوئے زمین میں سے نکل آیا۔ جب سلیمان ؑ نے اسے اپنے سامنے موجود دیکھ لیا تو فرمایا یہ صرف میرے رب کا فضل ہے کہ وہ مجھے آزمالے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں یا ناشکری ؟ جو شکر کرے وہ اپنا ہی نفع کرتا ہے اور جو ناشکری کرے وہ اپنا نقصان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بندوں کی بندگی سے بےنیاز ہے اور خود بندوں سے بھی اس کی عظمت کسی کی محتاجی نہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت (من عمل صالحا فلنفسہ الخ) ، جو نیک عمل کرتا ہے وہ اپنے لئے اور جو برائی کرتا ہے وہ اپنے لئے۔ اور جگہ ہے جو نیکی کرتے ہیں وہ اپنے لئے ہی اچھائی جمع کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے فرمایا تھا تم اور روئے زمین کے سب انسان بھی اگر اللہ سے کفر کرنے لگو تو اللہ کا کچھ نہیں بگاڑوگے۔ وہ غنی ہے اور حیمد ہے صحیح مسلم شریف میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو اگر تمہارے سب اگلے پچھلے انسان جنات بہتر سے بہتر اور نیک بخت سے نیک بخت ہوجائیں تو میرا ملک بڑھ نہیں جائے گا اور اگر سب کے سب بدبخت اور برے بن جائیں تو میرا ملک گھٹ نہیں جائے گا یہ تو صرف تمہارے اعمال ہیں جو جمع ہونگے اور تم کو ہی ملیں گے جو بھلائی پائے تو اللہ کا شکر کرے اور جو برائی پائے تو صرف اپنے نفس کو ہی ملامت کرے۔
The one who had knowledge of the revealed Scripture — and this was one Āsif b. Barkhiyā a righteous individual with knowledge of God’s Greatest Name which when invoked in supplication for something it is immediately granted — said ‘I will bring it to you before your glance returns to you after you look at something. So he the afreet said to him ‘Look up towards the heaven’ which he did and when his glance returned in front of him he found it Bilqīs’ throne placed before him — for in the instance in which Solomon looked up to the heaven Āsif supplicated by invoking the Greatest Name that God bring it thereto; and this was done by having it travel under the earth until it sprung up below Solomon’s seat kursī. Then when he saw it standing still before him he said ‘This bringing it to me is of my Lord’s bounty that He may try me test me whether I give thanks read a-ashkur pronouncing both hamzas; or by replacing the second one with an alif; or by not pronouncing the second one but inserting an alif between the one not pronounced and the other one or without the insertion or am ungrateful for the favour. And whoever gives thanks gives thanks only for his own sake because the reward for his thanks shall be his and whoever is ungrateful for the favour should know then my Lord is surely Independent with no need of his thanks Generous’ by being bounteous to those who are ungrateful for it.