“And to recite the Qur’an”; so whoever attained the right path, has attained it for his own good; and whoever goes astray – so say, “Indeed I am only a Herald of Warning.” — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
قل -أيها الرسول- للناس: إنما أُمرت أن أعبد رب هذه البلدة، وهي "مكة"، الذي حَرَّمها على خلقه أن يسفكوا فيها دمًا حرامًا، أو يظلموا فيها أحدًا، أو يصيدوا صيدها، أو يقطعوا شجرها، وله سبحانه كل شيء، وأُمرت أن أعبده وحده دون مَن سواه، وأُمرت أن أكون من المنقادين لأمره، المبادرين لطاعته، وأن أتلو القرآن على الناس، فمن اهتدى بما فيه واتبع ما جئت به، فإنما خير ذلك وجزاؤه لنفسه، ومن ضلَّ عن الحق فقل -أيها الرسول-: إنما أنا نذير لكم من عذاب الله وعقابه إن لم تؤمنوا، فأنا واحد من الرسل الذين أنذروا قومهم، وليس بيدي من الهداية شيء.
اللہ تعالیٰ کو حکم اعلان اللہ تعالیٰ اپنے نبی محترم ﷺ سے فرماتا ہے کہ آپ لوگوں میں اعلان کردیں کہ میں اس شہر مکہ کے رب کی عبادت کا اور اس کی فرمانبرداری کا مامور ہوں۔ جیسے ارشاد ہے کہ اے لوگو ! اگر تمہیں میرے دین میں شک ہے تو ہوا کرے میں تو جن کی تم عبادت کررہے ہو ان کی عبادت ہرگز نہیں کرونگا۔ میں اسی اللہ کا عابد ہوں جو تمہاری زندگی موت کا مالک ہے۔ یہاں مکہ شریف کی طرف ربوبیت کی اضافت صرف بزرگی اور شرافت کے اظہار کے لئے ہے جیسے فرمایا آیت (فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ ۙ) 106۔ قریش :3) انہیں چاہیے کہ اس شہر کے رب کی عبادت کریں جس نے انہیں اوروں کی بھوک کے وقت آسودہ اور اوروں کے خوف کے وقت بےخوف کر رکھا ہے۔ یہاں فرمایا کہ اس شہر کو حرمت وعزت والا اس نے بنایا ہے۔ جیسے بخاری ومسلم میں ہے کہ حضور ﷺ نے فتح مکہ والے دن فرمایا کہ یہ شہر اسی وقت سے باحرمت ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حرمت دینے سے حرمت والا ہی رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے نہ اس کے کانٹے کاٹے جائیں نہ اس کا شکار خوف زدہ کیا جائے نہ اس میں گری پڑی چیز کسی کی اٹھای جائے ہاں جو پہچان کر مالک کو پہنچانا چاہے اس کے لئے جائز ہے۔ اس کی گھاس بھی نہ کاٹی جائے۔ یہ حدیث بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں کے ساتھ مروی ہے جیسے کہ احکام کی کتابوں میں تفصیل سے موجود ہے۔ وللہ الحمد۔ پھر اس خاص چیز کی ملکیت ثابت کرکے اپنی عام ملکیت کا ذکر فرماتا ہے کہ ہر چیز کا رب اور مالک وہی ہے۔ اس کے سوا نہ کوئی مالک نہ معبود۔ اور مجھے یہ حکم بھی ملا ہے کہ میں موحد مخلص مطیع اور فرمانبردار ہو کر رہوں۔ اور مجھے یہ بھی فرمایا گیا کہ میں لوگوں کو اللہ کا کلام پڑھ کر سناؤں۔ جیسے فرمان ہے کہ ہم یہ آیتیں اور یہ حکمت والا ذکر تیرے سامنے تلاوت کرتے ہیں۔ اور آیت میں ہے ہم تجھے موسیٰ اور فرعون کا صحیح واقعہ سناتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ میں اللہ کا مبلغ ہوں میں تمہیں جگا رہا ہوں۔ تمہیں ڈرا رہا ہوں۔ اگر میری مان کر راہ راست پر آؤگے تو اپنا بھلاکروگے۔ اور اگر میری نہ مانی تو میں اپنے تبلیغ کے فرض کو ادا کرکے سبکدوش ہوگیا ہوں۔ اگلے رسولوں نے بھی یہی کیا تھا اللہ کا کلام پہنچاکر اپنا دامن پاک کرلیا۔ جیسے فرمان ہے تجھ پر صرف پہنچادینا ہے حساب ہمارے ذمہ ہے۔ اور فرمایا تو صرف ڈرا دینے والا ہے اور ہر چیز پر وکیل اللہ ہی ہے۔ اللہ کے لئے تعریف ہے جو بندوں کی بیخبر ی میں انہیں عذاب نہیں کرتا بلکہ پہلے اپنا پیغام پہنچاتا ہے اپنی حجت تمام کرتا ہے بھلا برا سمجھا دیتا ہے۔ ہم تمہیں ایسی آیتیں دکھائیں گے کہ تم خود قائل ہوجاؤ۔ جیسے فرمایا آیت (سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ۭ اَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ اَنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ 53) 41۔ فصلت :53) یعنی ہم انہیں خود ان کے نفسوں میں اور ان کے اردگرد ایسی نشانیاں دکھائیں گے کہ جن سے ان پر حق ظاہر ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے کرتوت سے غافل نہیں بلکہ اسکا علم ہر چھوٹی بڑی چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے دیکھو لوگو ! اللہ کو کسی چیز سے اپنے عمل سے غافل نہ جاننا۔ وہ ایک ایک مچھر سے ایک ایک پتنگے سے اور ایک ایک ذرے سے باخبر ہے۔ عمربن عبدالعزیز سے مروی ہے کہ اگر وہ غافل ہوتا تو انسان کے قدموں کے نشان سے جنہیں ہوا مٹادیتی ہے غفلت کرجاتا لیکن وہ ان نشانات کا بھی حافظ ہے اور عالم ہے۔ امام احمد بن حنبل اکثر ان دو شعروں کو پڑھتے تھے جو یا تو آپ کے ہیں یا کسی اور کے شعر (اذا ماخلوت الدھر یوما فلا تقل خلوت ولکن قل علی رقیب)یعنی جب تو کسی وقت بھی خلوت اور تنہائی میں ہو تو اپنے آپ کو تنہا اور اکیلا نہ سمجھنا بلکہ اپنے اللہ کو وہاں حاضر ناظر جاننا۔ وہ ایک ساعت بھی کسی سے غافل نہیں نہ کوئی مخفی اور پوشیدہ چیز اس کے علم سے باہر ہے۔ اللہ کے فضل وکرم سے سورة نمل کی تفسیر ختم ہوئی۔
and to recite the Qur’ān to you as a call to faith. So whoever is guided to it is guided only for his own sake since the reward for his being guided will be his; and whoever goes astray from faith and errs from the path of guidance say to him ‘I am just one of the warners’ the threateners and therefore my duty is only to deliver the Message — this was revealed before the command to fight against the disbelievers.