And those who believed and did good deeds, We shall soon admit them into Gardens beneath which rivers flow – abiding in it forever; in it for them are pure wives – and We shall admit them into places of plentiful shade. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
والذين اطمأنت قلوبهم بالإيمان بالله تعالى والتصديق برسالة رسوله محمد صلى الله عليه وسلم، واستقاموا على الطاعة، سندخلهم جنات تجري من تحتها الأنهار، ينعمون فيها أبدًا ولا يخرجون منها، ولهم فيها أزواج طهرها الله مِن كل أذى، وندخلهم ظلا كثيفًا ممتدًا في الجنة.
عذاب کی تفصیل اور نیک لوگوں کا انجام بالخیر اللہ کی آیتوں کے نہ ماننے اور رسولوں سے لوگوں کو برگشتہ کرنے والوں کی سزا اور ان کے بد انجام کا ذکر ہوا انہیں اس آگ میں دھکیلا جائے گا جو انہیں چاروں طرف سے گھیرلے گی اور ان کے روم روم کو سلگا دے اور یہی نہیں بلکہ یہ عذاب دائمی ایسا ہوگا ایک چمڑا جل گیا تو دوسرا بدل دیا جائے گا جو سفید کاغذ کی مثال ہوگا ایک ایک کافر کی سو سو کھالیں ہوں گی ہر ہر کھال پر قسم قسم کے علیحدہ علیحدہ عذاب ہوں گے ایک ایک دن میں ستر ہزار مرتبہ کھال الٹ پلٹ ہوگی۔ یعنی کہہ دیا جائے گا کہ جلد لوٹ آئے وہ پھر لوٹ آئے گی۔ حضرت عمر ؓ کے سامنے جب اس آیت کی تلاوت ہوئی تو آپ پڑھنے والے سے دوبارہ سنانے کی فرمائش کرتے وہ دوبارہ پڑھتا تو حضرت معاذ بن جبل ؓ فرماتے ہیں میں آپ کو اس کی تفسیر سناؤں ایک ایک ساعت میں سو سو بار بدلی جائے گی اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہی سنا ہے (ابن مردویہ وغیرہ) دوسری روایت میں ہے کہ اس وقت کعب ؓ نے کہا تھا کہ مجھے اس آیت کی تفسیر یاد ہے میں نے اسے اسلام لانے سے پہلے پڑھا تھا آپ نے فرمایا اچھا بیان کرو اگر وہ وہی ہوئی جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے تو ہم اسے قبول کریں گے ورنہ ہم اسے قابل التفات نہ سمجھیں گے تو آپ نے فرمایا ایک ساعت میں ایک سو بیس مرتبہ اس پر حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا میں نے اسی طرح حضور ﷺ سے سنا ہے حضرت ربیع بن انس ؓ فرماتے ہیں پہلی کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ ان کی کھالیں چالیس ہاتھ یا چھہتر ہاتھ ہوں گی اور ان کے پیٹ اتنے بڑے ہوں گے کہ اگر ان میں پہاڑ رکھا جائے تو سما جائے۔ جب ان کھالوں کو آگ کھالے گی تو اور کھالیں آجائیں گی ایک حدیث میں اس سے بھی زیادہ مسند احمد میں ہے جہنمی جہنم میں اس قدر بڑے بڑے بنا دیئے جائیں گے کہ ان کے کان کی نوک سے کندھا سات سو سال کی راہ پر ہوگا اور ان کی کھال کی موٹائی ستر ذراع ہوگی اور کچلی مثل احد پہاڑ کے ہوں گی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد کھال سے لباس ہے لیکن یہ ضعیف ہے اور ظاہر لفظ کے خلاف ہے اس کے مقابلوں میں نیک لوگوں کے انجام کو بیان کیا جاتا ہے کہ وہ جنت عدن میں ہوں گے جس کے چپے چپے پر نہریں جاری ہوں گی جہاں چاہیں انہیں لے جائیں اپنے محلات میں باغات میں راستوں میں غرض جہاں ان کے جی چاہیں وہیں وہ پاک نہریں بہنے لگیں گی، پھر سب سے اعلیٰ لطف یہ ہے کہ یہ تمام نعمتیں ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہوں گی نہ ختم ہوں گی پھر ان کے لئے وہاں حیض و نفاس سے گندگی اور پلیدی سے، میل کچیل اور بو باس سے، رذیل صفتوں اور بےہودہ اخلاق سے پاک بیویاں ہوں گی اور گھنے لمبے چوڑے سائے ہوں گے جو بہت فرحت بخش بہت ہی سرور انگیز راحت افزا دل خوش کن ہوں گے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے تلے ایک سو سال تک بھی ایک سوار چلا جائے تو اس کا سایہ ختم نہ ہو یہ شجرۃ الخلد ہے (ابن جزیر)
And those that believe and perform righteous deeds We shall admit them to Gardens underneath which rivers flow wherein they abide they shall have therein spouses purified of menstruation and every impurity and We shall admit them to plenteous shade that is everlasting shade never replaced by any sun and this is the shade of Paradise.