And We did not send any Noble Messenger except that he be obeyed by Allah’s command; and if they, when they have wronged their own souls, come humbly to you (O dear Prophet Mohammed – peace and blessings be upon him) and seek forgiveness from Allah, and the Noble Messenger intercedes for them, they will certainly find Allah as the Most Acceptor Of Repentance, the Most Merciful. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
وما بعَثْنَا من رسول من رسلنا، إلا ليستجاب له، بأمر الله تعالى وقضائه. ولو أن هؤلاء الذين ظلموا أنفسهم باقتراف السيئات، جاؤوك -أيها الرسول- في حياتك تائبين سائلين الله أن يغفر لهم ذنوبهم، واستغفرت لهم، لوجدوا الله توابًا رحيمًا.
اطاعت رسول ﷺ ہی ضامن نجات ہے مطلب یہ ہے کہ ہر زمانہ کے رسول کی تابعداری اس کی امت پر اللہ کی طرف سے فرض ہوتی ہے منصب رسالت یہی ہے کہ اس کے سبھی احکامات کو اللہ کے احکام سمجھا جائے، حضرت مجاہد ؒ فرماتے ہیں باذن اللہ سے یہ مراد ہے کہ اس کی توفیق اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہے اس کی قدرت و مشیت پر موقوف ہے، جیسے اور آیت میں ہے (وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗٓ اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِاِذْنِھٖ ۚ حَتّٰى اِذَا فَشِلْتُمْ وَ تَنَازَعْتُمْ فِي الْاَمْرِ وَعَصَيْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَآ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ) 3۔ آل عمران :152) یہاں بھی اذن سے مراد امر قدرت اور مشیت ہے یعنی اس نے تمہیں ان پر غلبہ دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ عاصی اور خطاکاروں کو ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے اور خود رسول سے بھی عرض کرنا چاہیے کہ آپ ہمارے لئے دعائیں کیجئے جب وہ ایسا کریں گے تو یقینا اللہ ان کی طرف رجوع کرے گا انہیں بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا ابو منصور صباغ نے اپنی کتاب میں جس میں مشہور قصے لکھے ہیں لکھا ہے کہ عتبی کا بیان ہے میں حضور ﷺ کی تربت کے پاس بیٹھا ہوا تھا جبکہ ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا اسلام علیکم یا رسول اللہ ﷺ میں نے قرآن کریم کی اس آیت کو سنا اور آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ کے سامنے اپنے گناہوں کا استغفار کروں اور آپ کی شفاعت طلب کروں پھر اس نے یہ اشعار پڑھی باخیر من دفنت بالقاع اعظمہ فطاب من طیبھن القاع والا کم نفسی الفداء لقبر انت ساکنہ فیہ لعاف وفیہ الجودو الکرم جن جن کی ہڈیاں میدانوں میں دفن کی گئی ہیں اور ان کی خوشبو سے وہ میدان ٹیلے مہک اٹھے ہیں اے ان تمام میں سے بہترین ہستی، میری جان اس قبر پر سے صدقے ہو جس کا ساکن تو ہے جس میں پارسائی سخاوت اور کرم ہے، پھر اعرابی تو لوٹ گیا اور مجھے نیند آگئی خواب میں کیا دیکھتا ہوں حضور ﷺ مجھ سے فرما رہے ہیں جا اس اعرابی کو خوش خبری سنا اللہ نے اس کے گناہ معاف فرما دئیے (یہ خیال رہے کہ نہ تو یہ کسی حدیث کی کتاب کا واقعہ ہے نہ اس کی کوئی صحیح سند ہے، بلکہ آیت کا یہ حکم حضور ﷺ کی زندگی میں ہی تھا وصال کے بعد نہیں جیسے کہ جاءوک کا لفظ بتلا رہا ہے اور مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ ہر انسان کا ہر عمل اس کی موت کے ساتھ منقطع ہوجاتا ہے واللہ اعلم۔ مترجم) پھر اللہ تعالیٰ اپنی بزرگ اور مقدس ذات کی قسم کھا کر فرماتے ہے کہ کوئی شخص ایمان کی حدود میں نہیں آسکتا جب تک کہ تمام امور میں اللہ کے اس آخر الزمان افضل تر رسول کو اپنا سچا حاکم نہ مان لے اور آپ کے ہر حکم ہر فیصلے ہر سنت اور ہر حدیث کو قابل قبول اور حق صریح تسلیم نہ کرنے لگے، دل کو اور جسم کو یکسر تابع رسول ﷺ نہ بنا دے۔ غرض جو بھی ظاہر و باطن چھوٹے بڑے کل امور میں حدیث رسول ﷺ کو اصل اصول سمجھے وہی مومن ہے۔ پس فرمان ہے کہ تیرے احکام کو یہ کشادہ دلی سے تسلیم کرلیا کریں اپنے دل میں پسندیدگی نہ لائیں تسلیم کلی تمام احادیث کے ساتھ رہے، نہ تو احادیث کے ماننے سے رکیں نہ انہیں بےاثر کرنے کے اسباب ڈھونڈیں نہ ان کے مرتبہ کی کسی اور چیز کو سمجھیں نہ ان کی تردید کریں نہ ان کا مقابلہ کریں نہ ان کے تسلیم کرنے میں جھگڑیں جیسے فرمان رسول ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے تم میں سے کوئی صاحب ایمان نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنی خواہش کو اس چیز کا تابع نہ بنا دے جسے میں لایا ہوں، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت زبیر ؓ کا کسی شخص سے نالیوں سے باغ میں پانی لینے کے بارے میں جھگڑا ہو پڑا تو حضور ﷺ نے فرمایا زبیر ؓ تم پانی پلا لو اس کے بعد پانی کو انصاری کے باغ میں جانے دو اس پر انصاری نے کہا ہاں یا رسول اللہ ﷺ یہ تو آپ کے پھوپھی کے لڑکے ہیں یہ سن کر آپ کا چہرہ متغیر ہوسکتا ہے اور فرمایا زبیر تم پانی پلا لو پھر پانی کو روکے رکھو یہاں تک کہ باغ کی دیواروں تک پہنچ جائے پھر اپنے پڑوسی کی طرف چھوڑ دو پہلے تو حضور ﷺ نے ایک ایسی صورت نکالی تھی کہ جس میں حضرت زبیر ؓ کو تکلیف نہ ہو اور انصاری کشادگی ہوجائے لیکن جب انصاری نے اسے اپنے حق میں بہتر نہ سمجھا تو آپ نے حضرت زبیر ؓ کو ان کا پورا حق دلوایا حضرت زبیر ؓ فرماتے ہیں جہاں تک میرا خیال ہے یہ (فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا) 4۔ النسآء :65) اسی بارے میں نازل ہوئی ہے، مسند احمد کی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ یہ انصاری ؓ بدری تھے اور روایت میں ہے دونوں میں جھگڑا یہ تھا کہ پانی کی نہر سے پہلے حضرت زبیر ؓ کا کھجوروں کا باغ پڑتا تھا پھر اس انصاری کا انصاری کہتے تھے کہ پانی دونوں باغوں میں ایک ساتھ آئے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ یہ دونوں دعویدار حضرت زبیر ؓ اور حضرت حاطب بن ابو بلتہ ؓ تھے آپ کا فیصلہ ان میں یہ ہوا کہ پہلے اونچے والا پانی پلا لے پھر نیچے والا۔ دوسری ایک زیادہ غریب روایت میں شان نزول یہ مروی ہے کہ دو شخص اپنا جھگڑا لے کر دربار محمد میں آئے آپ نے فیصلہ کردیا لیکن جس کے خلاف فیصلہ تھا اس نے کہا حضور ﷺ آپ ہمیں حضرت عمر ؓ کے پاس بھیج دیجئے آپ نے فرمایا بہت اچھا ان کے پاس چلے جاؤ جب یہاں آئے تو جس کے موافق فیصلہ ہوا تھا اس نے ساراہی واقعہ کہہ سنایا حضرت عمر ؓ نے اس دوسرے سے پوچھا کیا یہ سچ ہے ؟ اس نے اقرار کیا آپ نے فرمایا اچھا تم دونوں یہاں ٹھہرو میں آتا ہوں اور فیصلہ کردیتا ہوں تھوڑی دیر میں تلوار تانے آگئے اور اس شخص کی جس نے کہا تھا کہ حضرت ہمیں عمر ؓ کے پاس بھیج دیجئے گردن اڑا دی دوسرا شخص یہ دیکھتے ہی دوڑا بھاگا آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچا اور کہا حضور ﷺ میرا ساتھی تو مار ڈالا گیا اور اگر میں بھی جان بچا کر بھاگ کر نہ آتا تو میری بھی خیر نہ تھی، آپ نے فرمایا میں عمر کو ایسا نہیں جانتا تھا کہ وہ اس جرات کے ساتھ ایک مومن کا خون بہا دے گا اس پر یہ آیت اتری اور اس کا خون برباد گیا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر ؓ کو بری کردیا، لیکن یہ طریقہ لوگوں میں اس کے بعد بھی جاری نہ ہوجائے اس لئے اس کے بعد ہی یہ آیت اتری (وَلَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ اَنِ اقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِيَارِكُمْ مَّا فَعَلُوْهُ اِلَّا قَلِيْلٌ مِّنْھُمْ) 4۔ النسآء :66) جو آگے آتی ہے (ابن ابی حاتم) ابن مردویہ میں بھی یہ روایت ہے جو غریب اور مرسل ہے اور ابن لہیعہ راوی ضعیف ہے واللہ اعلم۔ دوسری سند سے مروی ہے دو شخص رسول مقبول ﷺ کے پاس اپنا جھگڑا لائے آپ نے حق والے کے حق میں ڈگری دے دی لیکن جس کے خلاف ہوا تھا اس نے کہا میں راضی نہیں ہوں آپ نے پوچھا تو کیا چاہتا ہے ؟ کہا یہ کہ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس چلیں دونوں وہاں پہنچے جب یہ واقعہ جناب صدیق ؓ نے سنا تو فرمایا تمہارا فیصلہ وہی ہے جو حضور ﷺ نے کیا وہ اب بھی خوش نہ ہوا اور کہا حضرت عمر ؓ کے پاس چلو وہاں گئے پھر وہ ہوا جو آپ نے اوپر پڑھا (تفسیر حافظ ابو اسحاق)
We never sent any Messenger but that he should be obeyed in what he commands and judges by the leave by the command of God and not that he should be disobeyed or opposed. If when they had wronged themselves by seeking the judgement of the false idol they had come to you repentant and asked forgiveness from God and the Messenger had asked forgiveness for them there is a shift from the second to the third person in this address in deference to his the Prophet’s s status; they would have found God Relenting to them Merciful to them.