Are their hearts diseased, or do they have doubts, or do they fear that Allah and His Noble Messenger will oppress them? In fact they themselves are the unjust. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
أسَبَبُ الإعراض ما في قلوبهم من مرض النفاق، أم شكُّوا في نبوة محمد صلى الله عليه وسلم، أم السبب خوفهم أن يكون حكم الله ورسوله جائرًا؟ كلا إنهم لا يخافون جورًا، بل السبب أنهم هم الظالمون الفجرة.
منافق کی زبان اور، دل منافقوں کا حل بیان ہو رہا ہے کہ زبان تو ایمان واطاعت کا اقرار کرتے ہیں لیکن دل سے اس کے خلاف ہیں۔ عمل کچھ ہے قول کچھ ہے۔ اس لئے کہ دراصل ایماندار نہیں۔ حدیث میں ہے کہ جو شخص بادشاہ کے سامنے بلوایا جائے اور وہ نہ جائے وہ ظالم ہے اور ناحق پر ہے۔ جب انہیں ہدایت کی طرف بلایا جاتا ہے، قرآن و حدیث کے ماننے کو کہا جاتا ہے تو یہ منہ پھیر لیتے ہیں اور تکبر کرنے لگتے ہیں جیسے آیت (الم تر الی الذین یزعمون سے صدودا) تک کی آیتوں میں بیان گزر چکا ہے۔ ہاں اگر انہیں شرعی فیصلے میں اپنا نفع نظر آتا ہو تو لمبے لمبے کلمے پڑھتے ہوئے، گردن ہلاتے ہوئے ہنسی خوش چلے آئیں گے اور جب معلوم ہوجائے کہ شرعی فیصلہ ان کی طبعی خواہش کے خلاف ہے، دنیوں مفاد کے خلاف ہے تو حق کی طرف مڑ کر دیکھیں گے بھی نہیں۔ پس ایسے لوگ پکے کافر ہیں۔ اس لئے کہ تین حال سے خالی نہیں یا تو یہ کہ ان کے دلوں میں ہی بےایمانی گھر کرگئی ہے یا انہیں اللہ کے دین کی حقانیت میں شکوک ہیں یا خوف ہے کہ کہیں اللہ اور رسول ان کا حق نہ مارلیں، ان پر ظلم وستم کریں گے اور یہ تینوں صورتیں کفر کی ہیں۔ اللہ ان میں سے ہر ایک کو جانتا ہے جو جیسا باطن میں ہے اس کے پاس وہ ظاہر ہے۔ دراصل یہی لوگ جابر ہیں، ظالم ہیں، اللہ اور رسول اللہ اس سے پاک ہیں۔ حضور ﷺ کے زمانے میں ایسے کافر جو ظاہر میں مسلمان تھے، بہت سے تھے، انہیں جب اپنا مطلب قرآن و حدیث میں نکلتا نظر آتا تو خدمت نبوی میں اپنے جھگڑے پیش کرتے اور جب انہیں دوسروں سے مطلب براری نظر آتی تو سرکار محمد ﷺ میں آنے سے صاف انکار کر جاتے۔ پس یہ آیت اتری اور حضور ﷺ نے فرمایا جن دو شخصوں میں کوئی جھگڑا ہو اور وہ اسلامی حکم کے مطابق فیصلے کی طرف بلایا جائے اور وہ اس سے انکار کرے وہ ظالم ہے اور ناحق پر ہے۔ یہ حدیث غریب ہے۔ پھر سچے مومنوں کی شان بیان ہوتی ہے کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے سوا کسی تیسری چیز کو داخل دین نہیں سمجھتے۔ وہ تو قرآن و حدیث سنتے ہی، اس کی دعوت کی ندا کان میں پڑتے ہی صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مانا یہ کامیاب، بامراد اور نجات یافتہ لوگ ہیں۔ حضرت عبادہ بن صامت ؓ جو بدری صحابی ہیں۔ انصاری ہیں، انصاروں کے ایک سردار ہیں، انہوں نے اپنے بھتیجے جنادہ بن امیہ سے بوقت انتقال فرمایا کہ آؤ مجھ سے سن لو کہ تمہارے ذمے کیا ہے ؟ سننا اور ماننا سختی میں بھی آسانی میں بھی، خوشی میں بھی ناخوشی میں بھی، اس وقت بھی جب کہ تیرا حق دوسرے کو دیا جارہا ہو، اپنی زبان کو عدل اور سچائی کے ساتھ سیدھی رکھ۔ کام کے اہل لوگوں سے کام کو نہ چھین، ہاں اگر کسی کھلی نافرمانی کا وہ حکم دیں تو نہ ماننا۔ کتاب اللہ کے خلاف کوئی بھی کہے ہرگز نہ ماننا۔ کتاب اللہ کی پیروی میں لگے رہنا۔ ابو درداء ؓ فرماتے ہیں کہ اسلام بغیر اللہ کی اطاعت کے نہیں اور بہتری جو کچھ ہے وہ جماعت کی، اللہ کی، اس کے رسول کی، خلیفۃ المسلمین کی اور عام مسلمانوں کی خیرخواہی میں ہے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ فرماتے ہیں اسلام کا مضبوط کڑا، اللہ کی وحدانیت کی گواہی، نماز کی پابندی، زکوٰۃ کی ادائیگی اور مسلمانوں کے بادشاہ کی اطاعت ہے۔ جو احادیث وآثار کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے بارے میں اور مسلمان بادشاہوں کی ماننے کے بارے میں مروی ہیں وہ اس کثرت سے ہیں کہ سب یہاں کسی طرح بیان ہو ہی نہیں سکتیں۔ جو شخص اللہ اور رسول کا نافرمان بن جائے جو حکم ملے بجا لائے جس چیز سے روک دیں رک جائے جو گناہ ہوجائے اس سے خوف کھاتا رہے آئندہ کے لئے اس سے بچتا رہے ایسے لوگ تمام بھلائیوں کو سمیٹنے والے اور تمام برائیوں سے بچ جانے والے ہیں۔ دنیا اور آخرت میں وہ نجات یافتہ ہیں۔
Is there a sickness disbelief in their hearts? Or are they in doubt are they uncertain of his prophethood or do they fear that God and His Messenger will be unjust to them? in judgement in other words that they will be wronged therein? No! Rather those they are the wrongdoers for shunning him.