And they said, “When we have mingled into the earth, will we be created again?”; in fact they disbelieve in the meeting with their Lord. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
وقال المشركون بالله المكذبون بالبعث: أإذا صارت لحومنا وعظامنا ترابًا في الأرض أنُبعَث خلقًا جديدًا؟ يستبعدون ذلك غير طالبين الوصول إلى الحق، وإنما هو منهم ظلم وعناد؛ لأنهم بلقاء ربهم -يوم القيامة- كافرون.
انسان اور فرشتوں کا ساتھ کفار کا عقیدہ بیان ہو رہا ہے کہ وہ مرنے کے بعد جینے کے قائل نہیں۔ اور اسے وہ محال جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب ہمارے ریزے ریزے جدا ہوجائیں گے اور مٹی میں مل کر مٹی ہوجائیں گے پھر بھی کیا ہم نئے سرے سے بنائے جاسکتے ہیں۔ افسوس یہ لوگ اپنے اوپر اللہ کو بھی قیاس کرتے ہیں اور اپنی محدود قدرت پر اللہ کی نامعلوم قدرت کا اندازہ کرتے ہیں۔ مانتے ہیں جانتے ہیں کہ اللہ نے اول بار پیدا کیا ہے۔ تعجب ہے پھر دوبارہ پیدا کرنے پر اسے قدرت کیوں نہیں مانتے ؟ حالانکہ اس کا تو صرف فرمان چلتا ہے۔ جہاں کہا یوں ہوجا وہیں ہوگیا۔ اسی لئے فرمادیا کہ انہیں اپنے پروردگار کی ملاقات سے انکار ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ ملک الموت جو تمہاری روح قبض کرنے پر مقرر ہیں تمہیں فوت کردیں گے۔ اس آیت میں بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ملک الموت ایک فرشتہ کا لقب ہے۔ حضرت برا کی وہ حدیث جس کا بیان سورة ابراہیم میں گذرچکا ہے اس سے بھی پہلی بات سمجھ میں آتی ہے اور بعض آثار میں ان کا نام عزرائیل بھی آیا ہے اور یہی مشہور ہے۔ ہاں ان کے ساتھی اور ان کے ساتھ کام کرنے والے فرشتے بھی ہیں جو جسم سے روح نکالتے ہیں اور نرخرے تک پہنچ جانے کے بعد ملک الموت اسے لے لیتے ہیں۔ ان کے لئے زمین سمیٹ دی گئی ہیں اور ایسی ہی ہے جیسے ہمارے سامنے کوئی طشتری رکھی ہوئی ہو۔ کہ جو چاہا اٹھالیا۔ ایک مرسل حدیث بھی اس مضمون کی ہے۔ ابن عباس ؓ کا مقولہ بھی ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک انصاری کے سرہانے ملک الموت کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ملک الموت میرے صحابی کے ساتھ آسانی کیجئے۔ آپ نے جواب دیا کہ اے اللہ کے نبی تسکین خاطر رکھئے اور دل خوش کیجئے واللہ میں خود باایمان اور نہایت نرمی کرنے والا ہوں۔ سنو ! یارسول ﷺ قسم ہے اللہ کی تمام دنیا کے ہر کچے پکے گھر میں خواہ وہ خشکی میں ہو یا تری میں ہر دن میں میرے پانچ پھیرے ہوتے ہیں۔ ہر چھوٹے بڑے کو میں اس سے بھی زیادہ جانتا ہوں جتنا وہ اپنے آپ کو جانتا ہے۔ یارسول اللہ ﷺ یقین مانئے اللہ کی قسم میں تو ایک مچھر کی جان قبض کرنے کی بھی قدرت نہیں رکھتاجب تک مجھے اللہ کا حکم نہ ہو۔ حضرت جعفر کا بیان ہے کہ ملک الموت ؑ کا دن میں پانچ وقت ایک ایک شخص کو ڈھونڈ بھال کرنا یہی ہے کہ آپ پانچوں نمازوں کے وقت دیکھ لیا کرتے ہیں اگر وہ نمازوں کی حفاظت کرنے والا ہو تو فرشتے اس کے قریب رہتے ہیں اور شیطان اس سے دور رہتا ہے اور اس کے آخری وقت فرشتہ اسے لا الہ اللہ محمد رسول اللہ کی تلقین کرتا ہے۔ مجاہد فرماتے ہیں ہر دن ہر گھر پر ملک الموت دو دفعہ آتے ہیں۔ کعب احبار اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ ہر دروازے پر ٹھہر کر دن بھر میں سات مرتبہ نظر مارتے ہیں کہ اس میں کوئی وہ تو نہیں جس کی روح نکالنے کا حکم ہوچکا ہو۔ پھر قیامت کے دن سب کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے قبروں سے نکل کر میدان محشر میں اللہ کے سامنے حاضر ہو کر اپنے اپنے کئے کا پھل پانا ہے۔
And they namely the deniers of resurrection say ‘When we are lost beneath the earth when we have gone thereunder having become dust mixed with its dust shall we be indeed created anew?’ an interrogative of denial; read a-innā by pronouncing both hamzas or by not pronouncing the second one and inserting an alif between them either way in both places. God exalted be He says Nay but they disbelieve in the encounter with their Lord through resurrection.