And He does not fear its coming behind (to take vengeance). — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
كذَّبت ثمود نبيها ببلوغها الغاية في العصيان، إذ نهض أكثر القبيلة شقاوة لعقر الناقة، فقال لهم رسول الله صالح عليه السلام: احذروا أن تمسوا الناقة بسوء؛ فإنها آية أرسلها الله إليكم، تدل على صدق نبيكم، واحذروا أن تعتدوا على سقيها، فإن لها شِرْب يوم ولكم شِرْب يوم معلوم. فشق عليهم ذلك، فكذبوه فيما توعَّدهم به فنحروها، فأطبق عليهم ربهم العقوبة بجرمهم، فجعلها عليهم على السواء فلم يُفْلِت منهم أحد. ولا يخاف- جلت قدرته- تبعة ما أنزله بهم من شديد العقاب.
آل ثمود کی تباہی کے اسباب :اللہ تعالیٰٰ بیان فرما رہا ہے کہ ثمودیوں نے اپنی سرکشی، تکبر و تجبر کی بناء پر اپنے رسول کی تصدیق نہ کی۔ محمد بن کعب فرماتے ہیں بطغواھا کا مطلب یہ ہے کہ ان سب نے تکذیب کی لیکن پہلی بات ہی زیادہ اولیٰ ہے، حضرت مجاہد اور حضرت قتادہ نے بھی یہی بیان کیا ہے، اس سرکشی اور تکذیب کی شامت سے یہ اس قدر بدبخت ہوگئی کہ ان میں سے جو زیادہ بد شخص تھا وہ تیار ہوگیا اس کا نام قدار بن سالف تھا اسی نے حضرت صالح ؑ کی اونٹنی کی کوچیں کاٹی تھیں اسی کے بارے میں فرمان ہے فنادوا صاحبھم فتعاطی فعقرثمودیوں کی آواز پر یہ آگیا اور اس نے اونٹنی کو مار ڈالا، یہ شخص اس قوم میں ذی عزت تھا شریف تھا ذی نسب تھا قوم کا رئیس اور سردار تھا۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ اپنے خطبے میں اس اونٹنی کا اور اس کے مار ڈالنے والے کا ذکر کیا اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ جیسے ابو زمعہ تھا اسی جیسا یہ شخص بھی اپنی قوم میں شریف عزیز اور بڑا آدمی تھا، امام بخاری بھیا سے تفسیر میں اور امام مسلم جہنم کی صفت میں لائے ہیں اور سنن ترمذی سنن نسائی میں بھی یہ روایت تفسیر میں ہے، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا کہ میں تجھے دنیا بھر کے بدبخت ترین دو شخص بتاتا ہوں ایک تو احیم ثمود جس نے اونٹنی کو مار ڈالا اور دوسرا وہ شخص جو تیری پیشانی پر زخم لگائے گا یہاں تک کہ داحی خون سے تربتر ہوجائے گی، اللہ کے رسول حضرت صالح ؑ نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ اے قوم اللہ کی اونٹنی کو برائی پہنچانے سے ڈرو، اس کے پانی پینے کے مقرر دن میں ظلم کرکے اسے پانی سے نہ روکو تمہاری اور اس کی باری مقرر ہے۔ لیکن ان بدبختوں نے پیغمبر کی نہ مانی جس گناہ کے باعث ان کے دل سخت ہوگئے اور پھر یہ صاف طور پر مقابلہ کرلیے تیار ہوگئے اور اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں، جسے اللہ تعالیٰ نے بغیر ماں باپ کے پتھر کی ایک چٹان سے پیدا کیا تھا جو حضرت صالح کا معجزہ اور اللہ کی قدرت کی کامل نشانی تھی اللہ بھی ان پر غضبناک ہوگیا اور ہلاکت ڈال دی۔ اور سب پر ابر سے عذاب اترا یہ اس لیے کہ احیم ثمود کے ہاتھ پر اس کی قوم کے چھوٹے بڑوں نے مرد عورت نے بیعت کرلی تھی اور سب کے مشورے سے اس نے اس اونٹنی کو کاٹا تھا اس لیے عذاب میں بھی سب پکڑے گئے ولا یخاف کو فلا یخاف بھی پڑھا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کسی سزا کرے تو اسے یہ خوف نہیں ہوتا کہ اس کا انجام کیا ہوگا ؟ کہیں یہ بگڑنہ بیٹھیں، یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اس بدکار، احیم نے اونٹنی کو مار تو ڈالا لیکن انجام سے نہ ڈرا، مگر پہلا قول ہی اولیٰ ہے واللہ اعلم الحمد اللہ سورة الشمس کی تفسیر ختم ہوئی۔
And He does not read wa-lā or fa-lā fear the consequence of it.