تفسیر ابن کثیر
Tafsir Ibn Kathir —
حافظ ابن کثیر
نیک لوگ اور جنت جن لوگوں نے نیکیاں کی تھیں برائیوں سے بچے تھے جنت اس دن ان کے پاس ہی ان کے سامنے ہی زیب وزینت کے ساتھ موجود ہوگی۔ اور سرکشوں کے لئے اسی طرح جہنم ظاہر ہوگی اس میں سے ایک گردن نکل کھڑی ہوگی جو گنہگاروں کی طرف غضبناک تیوروں سے نظر ڈالے گی اور اس طرح شور مچائے گی کہ دل اڑ جائیں گے اور مشرکوں سے ڈانٹ ڈپت کے ساتھ فرمایا جائے گا کہ تمہارے معبودان باطل جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے تھے کہاں ہیں۔ کیا وہ تمہاری کچھ مدد کرتے ہیں ؟ یا خود اپنی مدد کرسکتے ہیں ؟ نہیں نہیں بلکہ عابد و معبود سب دوزخ میں الٹے لٹک رہے ہیں اور جل بھن رہے ہیں۔ تابع ومتبوع سب اوپر تلے جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے ساتھ ہی ابلیس کے کل لشکری بھی اول سے لے کر آخر تک۔ وہاں سفلے لوگ بڑے لوگوں سے جھگڑیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے زندگی بھر تمہاری مانی۔ آج تم ہمیں عذابوں سے کیوں نہیں چھڑاتے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم ہی بالکل گمراہ تھے راہ سے دور ہوگئے تھے کہ تمہارے احکام کو اللہ کے احکام کے مثل سمجھ بیٹھے تھے اور رب العلیمن کے ساتھ ہی تمہاری بھی عبادت کرتے رہے گویا کہ تمہیں رب کے برابر سمجھے ہوئے تھے۔ افسوس ہمیں اس غلط اور خطرناک راہ پر مجرموں نے لگائے رکھا۔ اب تو ہماری کوئی سفارشی بھی نہیں رہا۔ آپس میں پوچھیں گے کہ کیا کوئی ہمارا شفیع ہے جو ہماری شفاعت کرے ؟ یا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ہم دوبارہ دنیا کی طرف لوٹائے جائیں اور وہاں جاکر اب تک کئے ہوئے اعمال کے خلاف عمل کریں ؟ جہاں ہمارا کوئی سفارشی ہمیں نظر نہیں آتا وہاں کوئی قریبی سچا دوست بھی نہیں دکھائی دیتا کہ وہی ہماری ہمدردی وغم خواری کرے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر کسی صالح شخص سے ہماری دوستی ہوتی تو وہ آج ضرور ہمیں نفع دیتا اور اگر کوئی ہمارا دلی محب ہوتا تو وہ ضرور ہماری شفاعت کے لئے آگے بڑھتا اور اگر ہمیں پھر سے دنیا میں جانا ملتا تو ہم آپ اپنے ان بد اعمال کا تدارک کرلیتے اپنے رب کی ہی مانتے اور اسی کی عبادتیں کرتے۔ لیکن حق تو یہ ہے کہ یہ بدبخت ازلی اگر دوبارہ بھی لائیں جائیں تو وہی بد اعمالیاں پھر سے شروع کردیں۔ سورة ص میں بھی ان دوزخیوں کے جھگڑے کا بیان کرکے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کا یہ جھگڑا یقینا ہوگا۔ ابراہیم ؑ نے اپنی قوم سے جو کچھ فرمایا اور جو دلیلیں انہیں دیں اور ان پر توحید کی وضاحت کی اس میں یقینا اللہ کی الوہیت پر اور اس کی یکتائی پر صاف برہان موجود ہے لیکن پھر بھی اکثر لوگ ایمان سے محروم ہیں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تیرا پالنہار پروردگار پورے غلبے اور قوت والا ساتھ ہی بخشش و رحم والا ہے۔
فی ظلال القرآن
Fi Zilal al-Quran —
سید ابراہیم قطب
وازلفت ……من المومنین (98)
جنت کو ایسے لوگوں کے بالکل قریب کر دیاج ائے گا جو خدا کے عذاب سے ڈرتے تھے اور جہنم پرت بھی پردہ اٹھا دیا جائے گا بہکے ہوئے سرکش گمراہوں کے لئے بالکل صاف صاف نظر آئے گی ، وہ لوگ جنہوں نے راستہ گم کردیا تھا اور اس دن کو جھٹلاتے تھے۔ اب وہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ یہاں اب ان پر لعنت و ملامت ہوگی اور قبل اس کے کہ انہیں اس میں اوپر نیچے گرا دیا جائے۔ ان سے پوچھا جائے گا کہ یہ لوگ جن معبودوں کی بندگی کرتے تھے ، وہ کہاں ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصے کی مناسبت سے یہاں یہ سوال لایا گیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے ساتھ ایسا ہی مکالمہ کیا تھا کہ آیا یہ بت سنتے بھی ہیں یا نفع و نقصان ہی دے سکتے ہیں۔ اب قیامت میں ان سے کہا جائے گا۔
اینما کنتم تعبدون (26 : 92) من دون اللہ (26 : 93) ” کہ اللہ کے سوا تم جن کی پوجا کرتے تھے وہ کہاں ہیں۔ “
ھل ینصرونکم او ینتصرون (26 : 93) ” کیا وہ تمہارے کچھ مدد کرسکتے ہیں یا اپنا بچائو کرسکتے ہیں۔ “ اس کے بعد ان کا کوئی جواب سامنے نہیں آتا نہ ان کے جواب کا انتظار کیا جاتا ہے۔ یہاں تو محض سوال کرنا ہی مطلوب تھا ، صرف سوال ہی سے سرکوبی اور ملامت مطلوب تھی۔
فکبکبوا فیھا ھم والغاون (26 : 93) وجنود ابلیس اجمعون (26 : 95) ” پھر وہ معبود ، یہ بہکے ہوئے لوگ اور ابلیس کے لشکر سب کے سب اس میں اوپرتلے دھکیل دیئے جائیں گے۔ ‘ لفظ کمبکبوا کے تلفظ ہی سے اور اس کی صوتی شوکت سے ہی یہ تاثر ملتا ہے کس طرح انہیں دفع کیا جاتا ہے ، کس طرح جہنم کے دھانے سے نیچے بےرحمی کے ساتھ گرایا جاتا ہے ، بغیر کسی ترتیب اور رعایت کے یہ لوگ اوپر تلے کرتے ہیں اور اس پورے عمل سے ایک کبکبہ اور ایک غلفلہ بلند ہوتا ہے۔ جس طرح دریا کا کوئی بلند کنارہ گرتا ہے اور اس کے کرنے کی ڈوبی ہوئی آواز بلند ہوتی ہے۔ کبکبوا ایسا ہی لفظ ہے جس کے تلفظ ہی سے مفہوم ذہن کی طرف دوڑتا ہے۔ یہ چونکہ گمراہ اور سرکش تھے اس لئے ان کے ساتھ سب سرکش گرائے گئے اور شیطان کے لشکر کے لشکر لائے جاتے ہیں اور گرائے جاتے ہیں اور ان کے گرنے سے کبکبہ اور غلغلہ بلند ہوتا ہے۔ یہاں مخصوص مجرمین کو پہلے خصوصیت کے ساتھ گرایا جائے اور بعد میں عام گرانی شروع ہوگی۔
اب یہ لوگ جہنم میں پڑے ہیں مگر مکالمہ بھی سنائی دیتا ہے۔ یہ اپنے بتوں اور الموں کے بارے میں اب یوں تبصرے کرتے ہیں۔
تاللہ ان کنا لفی ضلل مبین (26 : 98) اذنسوبکم برب العلمین (26 : 98) ” یہ بہکے ہوئے لوگ ان مبعودوں سے کہیں گے خدا کی قسم ہم تو تصریح گمرایہ میں مبتلا تھے جبکہ تم کو رب العالمین کی برابری کا درجہ دے رہے تھے۔ “ تمہاری عبادت بھی رب العالمین کی عبادت کی طرح کرتے تھے۔ یا تو رب العالمین کے ساتھ تمہاری عبادت کرتے تھے یا اس سے الگ۔ اب تو یہ لوگ جہنم میں یہ بات کہہ رہے ہیں لیکن اس کا فائدہ کیا ہے ؟ یہ تو سب ذمہ داری ان لوگوں پر ڈال رہے ہیں جنہوں نے ان کو گمراہ کیا تھا۔ جنہوں نے ان کو گمراہ کیا اور راہ راست کی طرف آنے سے روک دیا لیکن جب یہ جہنم میں قرار پکڑیں گے تو ہوش آئے گا کہ اب تو وقت گزر گیا ہے ۔ اور یہ واویلا بعد از وقت ہے۔ اب اگر ہم ذمہ داریاں تقسیم بھی کردیں تو فائدہ کیا ہوگا۔
فما لنا من شافعین (26 : 100) ولا صدیق حمیم (26 : 101) ” اب نہ ہمارا کوئی سفارشی ہے اور نہ کوئی جگری دوست۔ “ اب نہ الہ ہیں جو سفارش کریں۔ نہ دوست ہیں جو کام آئیں۔ اگر سفارش نہیں ہے تو کیا ہم دنیا کی طرف لوٹ نہیں سکتے کہ وہاں دوبارہ جا کر درست رویہ اختیار کریں۔
فلو ان لنا کرہ فنکون من المومنین (26 : 102) ” کاش ہمیں ایک دفعہ پھر پلٹنے کا موقعہ مل جائے تو ہم مومن ہوں “۔ مگر یہ تو تمناہی تمنا ہوگی۔ نہ واپسی ہوگی ، نہ سفارش ہوگی۔ یہ ہوگا یوم الدین۔ اب آخری تبصرہ !