تفسیر ابن کثیر
Tafsir Ibn Kathir —
حافظ ابن کثیر
ہدایت طبقاتی عصبیت سے پاک ہے قوم نوح نے اللہ کے رسول کو جواب دیا کہ چند سفلے اور چھوٹے لوگوں نے تیری بات مانی ہے۔ ہم سے یہ نہیں ہوسکتا کہ ان رذیلوں کا ساتھ دیں اور تیری مان لیں۔ اس کے جواب میں اللہ کے رسول نے جواب دیا یہ میرا فرض نہیں کہ کوئی حق قبول کرنے کو آئے تو میں اس سے اس کی قوم اور پیشہ دریافت کرتا پھروں۔ اندرونی حالات پر اطلاع رکھنا، حساب لینا اللہ کا کام ہے۔ افسوس تمہیں اتنی سمجھ بھی نہیں۔ تمہاری اس چاہت کو پورا کرنا میرے اختیار سے باہر ہے کہ میں ان مسکینوں سے اپنی محفل خالی کرالوں۔ میں تو اللہ کی طرف سے ایک آگاہ کردینے والا ہوں۔ جو بھی مانے وہ میرا اور جو نہ مانے وہ خود ذمہ دار۔ شریف ہو یا رذیل ہو امیر ہو یا غریب ہو جو میری مانے میرا ہے اور میں اس کا ہوں۔
فی ظلال القرآن
Fi Zilal al-Quran —
سید ابراہیم قطب
قال وما علمی ……نذیر مبین (115)
یہ بڑے لوگ عوام کے بارے میں ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ ان کے اخلاق و عادات اعلیٰ معیار کے نہیں ہوتے اور نہ ہی اعلیٰ طبقات میں برداشت کئے جاتے ہیں کیونکہ یہ اعلیٰ طبقات کے لوگ بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں اور ذوق لطیف رکھتے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) ان سے کہتے ہیں کہ میں تو لوگوں سے ایمان لانے کے سوا کچھ مطالبہ نہیں کرتا اور یہ غریب لوگ جب ایمان لے آئے ہیں تو میں ان سے اب اور کیا مطالبہ کروں۔ اس سے قبل ان کے جو اعمال تھے وہ خدا ہی جانتا ہے۔ ان کی قدر و قیمت کا تعین اللہ کرے گا۔ اور اچھائیوں اور برائیوں پر جزا و سزاب ھی اللہ دے گا۔ اللہ ہر چیز کو جانتا ہے اور تمہاری حالت ہی ہے کہ وہ مانشعرون ” تم شعور نہیں رکھتے “ کہ اللہ کے ترازو میں کون وزن رکھتا ہے جہاں تک میرا تعلق ہے تو میرا فریضہ صرف کھلے اندازے ڈرانا ہے۔
جب حضرت نوح (علیہ السلام) نے واضح دلائل اور سیدھی منطق پیش کی اور اب وہ اس بات سے عاجز آگئے کہ حضرت نوح کے ساتھ مزید کوئی مکالمہ کرسکیں تو انہوں نے وہی ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی جس کو سرکش اور ظالم اور جابر ہمیشہ اختیار کرتے ہیں۔ یعنی حجت اور برہان کے مقابلے میں ڈنڈا۔ ہر زمان و مکان میں لاجوبا انسان کا یہی دستور ہوتا ہے کہ جب اس کے پاس دلیل کا توشہ ختم ہوتا ہے تو وہ ہتھیار نکالتا ہے۔