Those who accepted faith, and left their homes and fought with their wealth and their lives in Allah’s way have a greater rank before Allah; and it is they who have succeeded. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
الذين آمنوا بالله وتركوا دار الكفر قاصدين دار الإسلام، وبذلوا أموالهم وأنفسهم في الجهاد لإعلاء كلمة الله، هؤلاء أعظم درجه عند الله، وأولئك هم الفائزون برضوانه.
سب سے بری عبادت اللہ کی راہ میں جہاد ہے ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ کافروں کا قول تھا کہ بیت اللہ کی خدمت اور حاجیوں کے پانی پلانے کی سعادت ایمان وجہاد سے بہتر ہے ہم چونکہ یہ دونوں خدمتیں انجام دے رہے ہیں اس لیے ہم سے بہتر کوئی نہیں۔ اللہ نے ان کے فخر و غرور اور حق سے تکبر اور منہ پھیرنے کو بےنقاب کیا کہ میری آیتوں کی تمہارے سامنے تلاوت ہوتے ہوئے تم ان سے بےپرواہی سے منہ موڑ کر اپنی بات چیت میں مشغول رہتے ہو۔ پس تمہارا گمان بیجا تمہارا غرور غلط، تمہارا فخر نامناسب ہے یوں بھی اللہ کے ساتھ ایمان اور اس کی راہ میں جہاد بہت بڑی چیز ہے لیکن تمہارے مقابلے میں تو وہ اور بھی بڑی چیز ہے کیونکہ تمہاری تو کوئی نیکی ہو بھی تو اسے شرک کا کیڑا کھا جاتا ہے۔ پس فرماتا ہے کہ یہ دونوں گروہ برابر کے بھی نہیں یہ اپنے تئیں آبادی کرنے والا کہتے تھے اللہ نے ان کا نام ظالم رکھا ان کی اللہ کے گھر کی خدمت بیکار کردی گئی۔ کہتے ہیں کہ حضرت عباس نے اپنی قید کے زمانے میں کہا تھا کہ تم اگر اسلام و جہاد میں تھے تو ہم بھی اللہ کے گھر کی خدمت اور حاجیوں کو آرام پہنچانے میں تھے اس پر یہ آیت اتری کہ شرک کے وقت کی نیکی بیکار ہے۔ صحابہ نے جب ان سے پر لے دے شروع کی تو حضرت عباس نے کہا تھا کہ ہم مسجد حرام کے متولی تھے، ہم غلاموں کو آزاد کرتے تھے، ہم بیت اللہ کو غلاف چڑھاتے تھے، ہم حاجیوں کو پانی پلاتے تھے، اس پر یہ آیت اتری، مروی ہے کہ یہ گفتگو حضرت عباس ؓ اور حضرت علی ؓ میں ہوئی تھی۔ مروی ہے کہ طلحہ بن شیبہ، عباس بن عبد المطلب، علی بن ابی طالب بیٹھے بیٹھے اپنی اپنی بزرگیاں بیان کرنے لگے، عثمان ؓ نے کہا میں بیت اللہ کا کنجی بردار ہوں میں اگر چاہوں وہاں رات گزار سکتا ہوں۔ عباس ؓ نے کہا میں زمزم کا پانی پلانے والا ہوں اور اس کا نگہبان ہوں اگر چاہوں تو مسجد ساری رات رہ سکتا ہوں۔ علی ؓ نے کہا میں نہیں جانتا کہ تم دونوں صاحب کیا کہہ رہے ہو ؟ میں لوگوں سے چھ ماہ پہلے قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہے میں مجاہد ہوں اور اس پر یہ آیت پوری اتری۔ عباس ؓ نے اپنا ڈر ظاہر کیا کہ کہیں میں چاہ زمزم کے پانی پلانے کے عہدے سے نہ ہٹا دیا جاؤں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں تم اپنے اس منصب پر قائم رہو تمہارے لیے اس میں بھلائی ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث وارد ہوئی ہے جس کا ذکر بھی یہاں ضروری ہے حضرت نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا اسلام کے بعد اگر میں کوئی عمل نہ کروں تو مجھے پرواہ نہیں بجز اس کے کہ میں حاجیوں کو پانی پلاؤں دوسرے نے اسی طرح مسجد حرام کی آبادی کو کہا تیسرے نے اسی طرح راہ رب کے جہاد کو کہا حضرت عمر ؓ نے انہیں ڈانٹ دیا اور فرمایا منبر رسول اللہ کے پاس آوازیں بلند نہ کرو یہ واقعہ جمعہ کے دن کا ہے جمعہ کے بعد ہم سب آنحضرت ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور آپ سے پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور روایت میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے وعدہ کیا تھا کہ نماز جمعہ کے بعد میں آپ جا کر حضور ﷺ سے یہ بات دریافت کرلوں گا۔
Those who believe and have emigrated and have struggled in the way of God with their possessions and their lives are greater in degree in rank with God than others; and those they are the triumphant the ones who will attain good.