And indeed We sent Moosa along with Our signs towards Firaun and his chieftains – he therefore said, “Indeed I am a Noble Messenger of the Lord of the Creation.” — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
ولقد أرسلنا موسى بحججنا إلى فرعون وأشراف قومه، كما أرسلناك -أيها الرسول- إلى هؤلاء المشركين من قومك، فقال لهم موسى: إني رسول رب العالمين، فلما جاءهم بالبينات الواضحات الدالة على صدقه في دعوته، إذا فرعون وملؤه مما جاءهم به موسى من الآيات والعبر يضحكون.
قلاباز بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کو جناب باری نے اپنا رسول و نبی فرما کر فرعون اور اس کے امراء اور اس کی رعایا قبطیوں اور بنی اسرائیل کی طرف بھیجا تاکہ آپ انہیں توحید سکھائیں اور شرک سے بچائیں آپ کو بڑے بڑے معجزے بھی عطا فرمائے جیسے ہاتھ کا روشن ہوجانا لکڑی کا اژدھا بن جانا وغیرہ۔ لیکن فرعونیوں نے اپنے نبی کی کوئی قدر نہ کی بلکہ تکذیب کی اور تمسخر اڑایا۔ اس پر اللہ کا عذاب آیا تاکہ انہیں عبرت بھی ہو۔ اور نبوت موسیٰ پر دلیل بھی ہو پس طوفان آیا ٹڈیاں آئیں جوئیں آئیں، مینڈک آئے اور کھیت، مال، جان اور پھل وغیرہ کی کمی میں مبتلا ہوئے۔ جب کوئی عذاب آتا تو تلملا اٹھتے حضرت موسیٰ کی خوشامد کرتے انہیں رضامند کرتے ان سے قول قرار کرتے آپ دعا مانگتے عذاب ہٹ جاتا۔ یہ پھر سرکشی پر اتر آتے پھر عذاب آتا پھر یہی ہوتا ساحر یعنی جادوگر سے وہ بڑا عالم مراد لیتے تھے ان کے زمانے کے علماء کا یہی لقب تھا اور انہی لوگوں میں علم تھا اور ان کے زمانے میں یہ علم مذموم نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا پس ان کا جناب موسیٰ ؑ کو جادوگر کہہ کر خطاب کرنا بطور عزت کے تھا اعتراض کے طور پر نہ تھا کیونکہ انہیں تو اپنا کام نکالنا تھا ہر بار اقرار کرتے تھے کہ مسلمان ہوجائیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کردیں گے پھر جب عذاب ہٹ جاتا تو وعدہ شکنی کرتے اور قول توڑ دیتے۔ اور آیت (فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰيٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَكْبَرُوْا وَكَانُوْاقَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ01303) 7۔ الاعراف :133) میں اس پورے واقعہ کو بیان فرمایا ہے۔
And verily We sent Moses with Our signs to Pharaoh and his council namely the Egyptians al-Qibt and he said ‘I am indeed the messenger of the Lord of the Worlds’.