تفسیر ابن کثیر
Tafsir Ibn Kathir —
حافظ ابن کثیر
تمام جاندار اور بےجان چیزوں کا خالق مالک رب اور متصرف اللہ تعالیٰ اکیلا ہی ہے۔ ہر چیز اس کی ماتحتی میں اس کے قبضے اور اس کی تدبیر میں ہے۔ سب کا کارساز اور وکیل وہی ہے۔ تمام کاموں کی باگ ڈور اسی کے ہاتھ میں ہے زمین و آسمان کی کنجیوں اور ان کے خزانوں کا وہی تنہا مالک ہے حمد و ستائش کے قابل اور ہر چیز پر قادر وہی ہے۔ کفر و انکار کرنے والے بڑے ہی گھاٹے اور نقصان میں ہیں۔ امام ابن ابی حاتم نے یہاں ایک حدیث وارد کی ہے گو سند کے لحاظ سے وہ بہت ہی غریب ہے بلکہ صحت میں بھی کلام ہے لیکن تاہم ہم بھی اسے یہاں ذکر کردیتے ہیں۔ اس میں ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ نے فرمایا اے عثمان تم سے پہلے کسی نے مجھ سے اس آیت کا مطلب دریافت نہیں کیا۔ اس کی تفسیر یہ کلمات ہیں (لا الہ الا اللہ واللہ اکبر سبحان اللہ وبحمدہ استغفر اللہ ولا قوۃ الا باللہ الاول والاخر والظاہر والباطن بیدہ الخیر یحییٰ و یمیت وھو علی کل شئی قدیر۔) اے عثمان جو شخص اسے صبح کو دس بار پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اسے چھ فضائل عطا فرماتا ہے اول تو وہ شیطان اور اس کے لشکر سے بچ جاتا ہے، دوم اسے ایک قنطار اجر ملتا ہے، تیسرے اس کا ایک درجہ جنت میں بلند ہوتا ہے، چوتھی اسکا حورعین سے نکاح کرا دیا جاتا ہے، پانچویں اس کے پاس بارہ فرشتے آتے ہیں، چھٹے اسے اتنا ثواب دیا جاتا ہے جیسے کسی نے قرآن اور توراۃ اور انجیل و زبور پڑھی۔ پھر اس ساتھ ہی اسے ایک قبول شدہ حج اور ایک مقبول عمرے کا ثواب ملتا ہے اور اگر اسی دن اس کا انتقال ہوجائے تو شہادت کا درجہ ملتا ہے۔ یہ حدیث بہت غریب ہے اور اس میں بڑی نکارت ہے۔ واللہ اعلم۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں مشرکین نے آپ سے کہا کہ آؤ تم ہمارے معبودوں کی پوجا کرو اور ہم تمہارے رب کی پرستش کریں گے اس پر آیت (قل افغیر اللہ سے من الخاسرین) تک نازل ہوئی۔ یہی مضمون اس آیت میں بھی ہے۔ (وَلَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 88) 6۔ الانعام :88) اوپر انبیاء (علیہم السلام) کا ذکر ہے پھر فرمایا ہے اگر بالفرض یہ انبیاء بھی شرک کریں تو ان کے تمام اعمال اکارت اور ضائع ہوجائیں یہاں بھی فرمایا کہ تیری طرف اور تجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کی طرف ہم نے یہ وحی بھیج دی ہے کہ جو بھی شرک کرے اس کا عمل غارت۔ اور وہ نقصان یافتہ اور زیاں کار، پس تجھے چاہیے کہ تو خلوص کے ساتھ اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت میں لگا رہ اور اس کا شکر گزار رہ۔ تو بھی اور تیرے ماننے والے مسلمان بھی۔
فی ظلال القرآن
Fi Zilal al-Quran —
سید ابراہیم قطب
درس نمبر 222 ایک نظر میں
یہ اس سورت کا آخری سبق ہے ، اس میں تخلیق کائنات کے حوالے سے حقیقت توحید کے مضمون کو لیا گیا ہے۔ یہ کہ اللہ نے تمام چیزوں کی تخلیق کی ہے۔ وہ تمام چیزوں میں مالکانہ تصرف رکھتا ہے۔ لہٰذا مشرکین کی یہ تجویز کہ حضور اکرم ﷺ ان کے الہوں کی بندگی کریں اور ہم اس کے مقابلے میں اللہ رب العالمین کی بندگی کریں۔ یوں ایک مشترکہ دین وجود میں آجائے ' یہ تجویز اور مطالبہ نہایت احمقانہ ہے اور عجیب و غریب ہے۔ اللہ تو خالق کائنات ہے۔ آسمانوں اور زمین کے تمام اختیارات اور بادشاہت اسی کی ہے۔ اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس کے ساتھ کسی اور چیز کی بندگی بھی کی جائے۔ جبکہ زمین و آسمان کی کنجیاں اس کے ہاتھ میں ہیں۔ حقیقت یہ ہے۔
وماقدرواللہ حق قدرہ ” اور ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے “۔ یہ لوگ اللہ کے ساتھ اور وں کو شریک کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ وحدہ معبود ، قدرت والا اور تمام کائنات کا کنڑول کرنے والا ہے۔
والارض ۔۔۔۔ بیمنهٖ (39: 67) ” قیامت کے روز پوری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دست راست میں لپٹے ہوں گے “۔ اور اس حقیقت کو اس انداز میں ریکارڈ کرنے کے لیے قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر پیش کیا جاتا ہے اور یہ منظر اس بات پر ختم ہوتا ہے کہ فرشتے عرش الہٰی کے اردگرد ننگے پاؤں پھر رہے ہوں گے۔ یہ اللہ کی تسبیح کے ساتھ اس کی حمد بیان کررہے ہوں گے۔ پوری کائنات حمدوثنا میں رطب اللسان ہوگی۔ اور کہا جائے گا ہر طرف اور ہر جہت سے الحمدللہ رب العالمین ” سب تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں “۔ اور اس کائنات کی حقیقت میں یہ ایک فیصلہ کس بات ہوگی۔
درس نمبر 222 تشریح آیات
آیت نمبر 62 تا 63
یہ وہ حقیقت ہے جس پر ہر چیز گواہ ہے۔ کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس نے کوئی چیز بنائی ہے اور کوئی معقول انسان یہ دعویٰ بھی نہیں کرسکتا کہ یہ کائنات بغیر کسی پیدا کرنے والے کے خود وجود میں آگئی ۔ حالانکہ اس کائنات کے اندر جو موجودات بھی ہیں ، ان کی ذات اور ان کی اسکیم بتاتی ہے کہ اس کو بالاراہ بنایا گیا ہے۔ کوئی چیز اتفاقی نظر نہیں آتی ، چاہے چھوٹی ہو یا بڑی۔
وھو علی کل شئ وکیل (39: 62) ” اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے “۔ زمین و آسمان کو وہی چلانے والا ہے اور اپنے ارادے اور منشا کے مطابق اللہ زمین و آسمان کو چلاتا ہے۔ یہ پوری کائنات اللہ کے نظام قضاوقدر کے مطابق چلتی ہے۔ اللہ کے ارادے کے سوا کسی اور کا ارادہ ان تصرفات میں دخیل نہیں ہے۔ اس بات کی شہادت فطرت دیتی ہے۔ حقیقت واقعہ بھی اسی کی تائید کرتی ہے اور انسانی عقل وضمیر بھی اس کی تائید میں ہے۔
والذین کفرواباٰیٰت اللہ اولئک ھم الخٰسرون (39: 63) ” اور جو لوگ اللہ کی آیات سے کفر کرتے ہیں وہی گھاٹے میں رہنے والے ہیں “۔ ان کو اس علم اور آگاہی سے محرومی ہے جس کے ذریعے ان کی زندگی اس پوری کائنات کی حرکت سے ہم آہنگ رہتی ہے۔ یہ ان کے لیے بڑا خسارہ ہے۔ وہ ہدایت کی راحت اور ایمان کے حسن سے محروم رہے اور اعتقاد اور نظریہ کے اطمینان اور یقین کی مٹھاس سے بھی محروم رہے اور آخرت میں وہ خود بھی گھاٹے میں رہے اور ان کی وجہ سے ان کے خاندان بھی گھاٹے میں رہے ۔ وہ تو اس قدر نقصان اٹھا رہے ہیں کہ ان پر آقاسرون کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے۔
اس حقیقت کی روشنی میں جس پر آسمان اور زمین گواہ ہیں اور جس پر اس کائنات کی ہر چیز گواہ ہے۔ حضور اکرم ﷺ کو یہ تلقین کی جاتی ہے کہ ان سے کہو : کیا تجویز کرتے ہو کہ میں تمہارے الہوں کی بندگی کروں اور اس بدلے میں تم الٰہ العالمین کی بندگی کرو۔ کس قدر جاہلانہ تجویز ہے یہ ؟ کیا سچائی کوئی بکنے والی جنس ہے جس کا بازاروں میں سودا ہوتا ہے۔