Man does not weary of seeking goodness; and if some misfortune reaches him, he loses hope, gets disappointed. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
لا يملُّ الإنسان من دعاء ربه طالبًا الخير الدنيوي، وإن أصابه فقر وشدة فهو يؤوس من رحمة الله، قنوط بسوء الظن بربه.
انسان کی سرکشی کا حال اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ مال صحت وغیرہ بھلائیوں کی دعاؤں سے تو انسان تھکتا ہی نہیں اور اگر اس پر کوئی بلا آپڑے یا فقر و فاقہ کا موقعہ آجائے تو اس قدر ہراساں اور مایوس ہوجاتا ہے کہ گویا اب کسی بھلائی کا منہ نہیں دیکھے گا، اور اگر کسی برائی یا سختی کے بعد اسے کوئی بھلائی اور راحت مل جائے تو کہنے بیٹھ جاتا ہے کہ اللہ پر یہ تو میرا حق تھا، میں اسی کے لائق تھا، اب اس نعمت پر پھولتا ہے، اللہ کو بھول جاتا ہے اور صاف منکر بن جاتا ہے۔ قیامت کے آنے کا صاف انکار کرجاتا ہے۔ مال و دولت راحت آرام اس کے کفر کا سبب بن جاتا ہے۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے (كَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰٓى ۙ) 96۔ العلق :6) یعنی انسان نے جہاں آسائش و آرام پایا وہیں اس نے سر اٹھایا اور سرکشی کی۔ پھر فرماتا ہے کہ اتنا ہی نہیں بلکہ اس بد اعمالی پر بھلی امیدیں بھی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بالفرض اگر قیامت آئی بھی اور میں وہاں اکٹھا بھی کیا گیا تو جس طرح یہاں سکھ چین میں ہوں وہاں بھی ہوں گا۔ غرض انکار قیامت بھی کرتا ہے مرنے کے بعد زندہ ہونے کو مانتا بھی نہیں اور پھر امیدیں لمبی باندھتا ہے اور کہتا ہے کہ جیسے میں یہاں ہوں ویسے ہی وہاں بھی رہوں گا۔ پھر ان لوگوں کو ڈراتا ہے کہ جن کے یہ اعمال و عقائد ہوں انہیں ہم سخت سزا دیں گے پھر فرماتا ہے کہ جب انسان اللہ کی نعمتیں پا لیتا ہے تو اطاعت سے منہ موڑ لیتا ہے اور ماننے سے جی چراتا ہے جیسے فرمایا آیت (فَتَوَلّٰى بِرُكْنِهٖ وَقَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ 39) 51۔ الذاریات :39) اور جب اسے کچھ نقصان پہنچتا ہے تو بڑی لمبی چوڑی دعائیں کرنے بیٹھ جاتا ہے عریض کلام اسے کہتے ہیں جس کے الفاظ بہت زیادہ ہوں اور معنی بہت کم ہوں۔ اور جو کلام اس کے خلاف ہو یعنی الفاظ تھوڑے ہوں اور معنی زیادہ ہوں تو اسے وجیز کلام کہتے ہیں۔ وہ بہت کم اور بہت کافی ہوتا ہے اسی مضمون کو اور جگہ اس طرح بیان کیا گیا ہے آیت (وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَان الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْۢبِهٖٓ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَاۗىِٕمًا ۚ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهٗ مَرَّ كَاَنْ لَّمْ يَدْعُنَآ اِلٰى ضُرٍّ مَّسَّهٗ ۭ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 12 ) 10۔ یونس :12) ، جب انسان کو مصیبت پہنچتی ہے تو اپنے پہلو پر لیٹ کر اور بیٹھ کر اور اکٹھے ہو کر غرض ہر وقت ہم سے مناجات کرتا رہتا ہے اور جب وہ تکلیف ہم دور کردیتے ہیں تو اس بےپرواہی سے چلا جاتا ہے کہ گویا اس مصیبت کے وقت اس نے ہمیں پکارا ہی نہ تھا۔
Man never wearies of supplicating for good in other words he never ceases to ask his Lord for wealth and good health and other good things but should any ill befall him such as impoverishment or hardship then he becomes despondent despairing of God’s mercy — this and what follows relates to the attitude of disbelievers.