Did they not travel in the land to see what sort of fate befell those before them? They were more than these in number, and they exceeded them in strength and the signs they left behind in the earth – so what benefit did they get from what they earned? — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
أفلم يَسِرْ هؤلاء المكذبون في الأرض ويتفكروا في مصارع الأمم المكذبة من قبلهم، كيف كانت عاقبتهم؟ وكانت هذه الأمم السابقة أكثر منهم عددًا وعدة وآثارًا في الأرض من الأبنية والمصانع والغراس وغير ذلك، فما أغنى عنهم ما كانوا يكسبونه حين حلَّ بهم بأس الله.
نزول عذاب کے وقت کا ایمان بےفائدہ ہے۔اللہ تعالیٰ ان اگلے لوگوں کو خبر دے رہا ہے جو رسولوں کو اس سے پہلے جھٹلا چکے ہیں۔ ساتھ ہی بتاتا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا کچھ انہوں نے بھگتا ؟ باوجود یکہ وہ قوی تھے زیادہ تھے زمین میں نشانات عمارتیں وغیرہ بھی زیادہ رکھنے والے تھے اور بڑے مالدار تھے۔ لیکن کوئی چیز ان کے کام نہ آئی کسی نے اللہ کے عذاب کو نہ دفع کیا نہ کم کیا نہ ٹالا نہ ہٹایا۔ یہ تھے ہی غارت کئے جانے کے قابل کیونکہ جب ان کے پاس اللہ کے قاصد صاف صاف دلیلیں، روشن حجتیں، کھلے معجزات، پاکیزہ تعلیمات لے کر آئے تو انہوں نے آنکھ بھر کر دیکھا تک نہیں اپنے پاس کے علوم پر مغرور ہوگئے۔ اور رسولوں کی تعلیم کی حقارت کرنے لگے، کہنے لگے ہم ہی زیادہ عالم ہیں حساب کتاب، عذاب ثواب کوئی چیز نہیں۔ اپنی جہالت کو علم سمجھ بیٹھے۔ پھر تو اللہ کا وہ عذاب آیا کہ ان کے بنائے کچھ نہ بنی اور جسے جھٹلاتے تھے۔ جس پر ناک بھوں چڑھاتے تھے جسے مذاق میں اڑاتے تھے اسی نے انہیں تہس نہس کردیا، پھر کس بل نکال ڈالا، تہ وبالا کردیا، روئی کی طرح دھن دیا اور بھوسی کی طرح اڑا دیا۔ اللہ کے عذابوں کو آتا ہوا بلکہ آیا ہوا دیکھ کر ایمان کا اقرار کیا اور توحید تسلیم بھی کرلی۔ اور غیر اللہ جل شانہ سے صاف انکار بھی کیا، لیکن اس وقت کی نہ توبہ قبول نہ ایمان قبول نہ اسلام مسلم۔ فرعون نے بھی غرق ہوتے ہوئے کہا تھا کہ میرا اس اللہ جل شانہ پر ایمان ہے جس پر بنی اسرائیل کا ایمان ہے میں اس کے سوا کسی کو لائق عبادت نہیں مانتا میں اسلام قبول کرتا ہوں۔ اللہ جل شانہ کی طرف سے جواب ملتا ہے کہ اب ایمان لانا بےسود ہے۔ بہت نافرمانیاں اور شرانگیزیاں کرچکے ہو۔ حضرت موسیٰ نے بھی اس سرکش کیلئے یہی بددعا کی تھی کہ اے اللہ جل شانہ آل فرعون کے دلوں کو اس قدر سخت کر دے کہ عذاب الیم دیکھ لینے تک انہیں ایمان نصیب نہ ہو۔ پس یہاں بھی فرمان باری ہے کہ عذابوں کا معائنہ کرنے پر ایمان کی قبولیت نے انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچایا۔ یہ اللہ کا حکم عام ہے۔ جو بھی عذابوں کو دیکھ کر توبہ کرے اس کی توبہ نامقبول ہے۔ حدیث شریف میں ہے غرغرے سے پہلے تک کی توبہ قبول ہے۔ جب دم سینے میں انکا روح حلقوم تک پہنچ گئی فرشتوں کو دیکھ لیا اب کوئی توبہ نہیں۔ اسی لئے آخر میں ارشاد فرمایا کہ کفار ٹوٹے اور گھاٹے میں ہی ہیں۔
Have they not travelled across the land to see the nature of the consequence for those before them? They were more powerful than them in might and in their vestiges on earth in the way of large structures and palaces. But what they used to earn did not avail them.