So their accepting of faith did not benefit them when they saw Our punishment; the tradition of Allah which has passed among His bondmen; and there were the disbelievers ruined. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
فلم يك ينفعهم إيمانهم هذا حين رأوا عذابنا؛ وذلك لأنه إيمان قد اضطروا إليه، لا إيمان اختيار ورغبة، سنة الله وطريقته التي سنَّها في الأمم كلها أن لا ينفعها الإيمان إذا رأوا العذاب، وهلك عند مجيء بأس الله الكافرون بربهم، الجاحدون توحيده وطاعته.
نزول عذاب کے وقت کا ایمان بےفائدہ ہے۔اللہ تعالیٰ ان اگلے لوگوں کو خبر دے رہا ہے جو رسولوں کو اس سے پہلے جھٹلا چکے ہیں۔ ساتھ ہی بتاتا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا کچھ انہوں نے بھگتا ؟ باوجود یکہ وہ قوی تھے زیادہ تھے زمین میں نشانات عمارتیں وغیرہ بھی زیادہ رکھنے والے تھے اور بڑے مالدار تھے۔ لیکن کوئی چیز ان کے کام نہ آئی کسی نے اللہ کے عذاب کو نہ دفع کیا نہ کم کیا نہ ٹالا نہ ہٹایا۔ یہ تھے ہی غارت کئے جانے کے قابل کیونکہ جب ان کے پاس اللہ کے قاصد صاف صاف دلیلیں، روشن حجتیں، کھلے معجزات، پاکیزہ تعلیمات لے کر آئے تو انہوں نے آنکھ بھر کر دیکھا تک نہیں اپنے پاس کے علوم پر مغرور ہوگئے۔ اور رسولوں کی تعلیم کی حقارت کرنے لگے، کہنے لگے ہم ہی زیادہ عالم ہیں حساب کتاب، عذاب ثواب کوئی چیز نہیں۔ اپنی جہالت کو علم سمجھ بیٹھے۔ پھر تو اللہ کا وہ عذاب آیا کہ ان کے بنائے کچھ نہ بنی اور جسے جھٹلاتے تھے۔ جس پر ناک بھوں چڑھاتے تھے جسے مذاق میں اڑاتے تھے اسی نے انہیں تہس نہس کردیا، پھر کس بل نکال ڈالا، تہ وبالا کردیا، روئی کی طرح دھن دیا اور بھوسی کی طرح اڑا دیا۔ اللہ کے عذابوں کو آتا ہوا بلکہ آیا ہوا دیکھ کر ایمان کا اقرار کیا اور توحید تسلیم بھی کرلی۔ اور غیر اللہ جل شانہ سے صاف انکار بھی کیا، لیکن اس وقت کی نہ توبہ قبول نہ ایمان قبول نہ اسلام مسلم۔ فرعون نے بھی غرق ہوتے ہوئے کہا تھا کہ میرا اس اللہ جل شانہ پر ایمان ہے جس پر بنی اسرائیل کا ایمان ہے میں اس کے سوا کسی کو لائق عبادت نہیں مانتا میں اسلام قبول کرتا ہوں۔ اللہ جل شانہ کی طرف سے جواب ملتا ہے کہ اب ایمان لانا بےسود ہے۔ بہت نافرمانیاں اور شرانگیزیاں کرچکے ہو۔ حضرت موسیٰ نے بھی اس سرکش کیلئے یہی بددعا کی تھی کہ اے اللہ جل شانہ آل فرعون کے دلوں کو اس قدر سخت کر دے کہ عذاب الیم دیکھ لینے تک انہیں ایمان نصیب نہ ہو۔ پس یہاں بھی فرمان باری ہے کہ عذابوں کا معائنہ کرنے پر ایمان کی قبولیت نے انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچایا۔ یہ اللہ کا حکم عام ہے۔ جو بھی عذابوں کو دیکھ کر توبہ کرے اس کی توبہ نامقبول ہے۔ حدیث شریف میں ہے غرغرے سے پہلے تک کی توبہ قبول ہے۔ جب دم سینے میں انکا روح حلقوم تک پہنچ گئی فرشتوں کو دیکھ لیا اب کوئی توبہ نہیں۔ اسی لئے آخر میں ارشاد فرمایا کہ کفار ٹوٹے اور گھاٹے میں ہی ہیں۔
But their faith was of no benefit to them when they saw Our doom — This is God’s way sunnata’Llāhi is in the accusative because it functions as a verbal noun from an implicit verb of the same expression with the believers among all communities which is that faith is of no benefit to them once the chastisement has been sent down which has its precdent; and it is thence that the disbelievers will be losers — it is thence that their status as losers will become apparent to all of mankind even though they will have always been losers before that.