And We do not postpone it except for a fixed term. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
وما نؤخر يوم القيامة عنكم إلا لانتهاء مدة معدودة في علمنا، لا تزيد ولا تنقص عن تقديرنا لها بحكمتنا.
ہلاکت اور نجات، ٹھوس دلائل کافروں کی اس ہلاکت اور مومنوں کی نجات میں صاف دلیل ہے ہمارے ان وعدوں کی سچائی پر جو ہم نے قیامت کے بارے میں کئے ہیں جس دن تمام اول و آخر کے لوگ جمع کئے جائیں گے۔ ایک بھی باقی نہ چھوٹے گا اور وہ بڑا بھاری دن ہوگا تمام فرشتے، تمام رسول، تمام مخلوق حاضر ہوگی۔ حاکم حقیقی عادل کافی انصاف کرے گا۔ قیامت کے قائم ہونے میں دیر کی وجہ یہ ہے کہ رب یہ بات پہلے ہی مقرر کرچکا ہے کہ اتنی مدت تک دنیا بنی آدم سے آباد رہے گی۔ اتنی مدت خاموشی پر گزرے گی پھر فلاں وقت قیامت قائم ہوگی۔ جس دن قیامت آجائے گی۔ کوئی نہ ہوگا جو اللہ کی اجازت کے بغیر لب بھی کھول سکے۔ مگر رحمن جسے اجازت دے اور وہ بات بھی ٹھیک بولے۔ تمام آوازیں رب رحمن کے سامنے پست ہوں گی۔ بخاری و مسلم کی حدیث شفاعت میں ہے اس دن صرف رسول ہی بولیں گے اور ان کا کلام بھی صرف یہی ہوگا کہ یا اللہ سلامت رکھ، یا اللہ سلامتی دے۔ مجمع محشر میں بہت سے تو برے ہوں گے اور بہت سے نیک۔ اس آیت کے اترنے پر حضرت عمر ؓ پوچھتے ہیں کہ پھر یا رسول اللہ ہمارے اعمال اس بنا پر ہیں جس سے پہلے ہی فراغت کرلی گئی ہے یا کسی نئی بنا پر ؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ اس حساب پر جو پہلے سے ختم ہوچکا ہے جو قلم چل چکا ہے لیکن ہر ایک کے لیے وہی آسان ہوگا۔ جس کے لیے اس کی پیدائش کی گئی ہے۔
And We do not defer it but to a term already reckoned but to a time predetermined by God.