So those who are ill-fated, are in the fire – they will bray like donkeys in it. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
فأما الذين شَقُوا في الدنيا لفساد عقيدتهم وسوء أعمالهم، فالنار مستقرهم، لهم فيها من شدة ما هم فيه من العذاب زفير وشهيق، وهما أشنع الأصوات وأقبحها، ماكثين في النار أبدًا ما دامت السموات والأرض، فلا ينقطع عذابهم ولا ينتهي، بل هو دائم مؤكَّد، إلا ما شاء ربك من إخراج عصاة الموحدين بعد مدَّة من مكثهم في النار. إن ربك -أيها الرسول- فعَّال لما يريد.
عذاب یافتہ لوگوں کی چیخیں گدھے کے چیخنے میں جیسے زیر و بم ہوتا ہے ایسے ہی ان کی چیخیں ہوں گی۔ یہ یاد رہے کہ عرب کے محاوروں کے مطاق قرآن کریم نازل ہوا ہے۔ وہ ہمیشگی کے محاورے کو اسی طرح بولا کرتے ہیں کہ یہ ہمیشیگی والا ہے جب تک آسمان و زمین کو قیام ہے۔ یہ بھی ان کے محاورے میں ہے کہ یہ باقی رہے گا جب تک دن رات کا چکر بندھا ہوا ہے۔ پس ان الفاظ سے ہمیشگی مراد ہے نہ کہ قید۔ اس کے علاوہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس زمین و آسمان کے بعد دار آخرت میں ان کے سوا اور آسمان و زمین ہو پس یہاں مراد جنس ہے۔ چناچہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ہر جنت کا آسمان و زمین ہے۔ اس کے بعد اللہ کی منشا کا ذکر ہے جیسے (النَّارُ مَثْوٰىكُمْ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ۭاِنَّ رَبَّكَ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ01208) 6۔ الانعام :128) میں ہے۔ اس استثنا کے بارے میں بہت سے قول ہیں جنہیں جوزی نے زاد المیسر میں نقل کیا ہے۔ ابن جریر نے خالد بن معدان، ضحاک، قتادہ اور ابن سنان کے اس قول کو پسند فرمایا ہے کہ موحد گنہگاروں کی طرف استثناء عائد ہے بعض سلف سے اس کی تفسیر میں بڑے ہی غریب اقوال وارد ہوئے ہیں۔ قتادہ فرماتے ہیں اللہ ہی کو اس کا پورا علم ہے۔
As for those who are damned according to God’s prior knowledge they will be in the Fire; their lot therein will be wailing which is a loud sound and sighing which is a faint sound;