And the example of a bad saying is like a filthy tree, which is cut off above the ground, therefore not having stability. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
ومثل كلمة خبيثة -وهي كلمة الكفر- كشجرة خبيثة المأكل والمطعم، وهي شجرة الحنظل، اقتلعت من أعلى الأرض؛ لأن عروقها قريبة من سطح الأرض ما لها أصل ثابت، ولا فرع صاعد، وكذلك الكافر لا ثبات له ولا خير فيه، ولا يُرْفَع له عمل صالح إلى الله.
لا الہ الا اللہ کی شہادت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں۔ کلمہ طیبہ سے مراد لا الہ الا اللہ کی شہادت ہے۔ پاکیزہ درخت کی طرح کا مومن ہے اس کی جڑ مضبوط ہے۔ یعنی مومن کے دل میں لا الہ الا اللہ جما ہوا ہے اس کی شاخ آسمان میں ہے۔ یعنی اس توحید کے کلمہ کی وجہ سے اس کے اعمال آسمان کی طرف اٹھائے جاتے ہیں اور بھی بہت سے مفسرین سے یہی مروی ہیں۔ کہ مراد اس سے مومن کے اعمال ہیں اور اس کے پاک اقوال اور نیک کام۔ مومن مثل کھجور کے درخت کے ہے۔ ہر وقت ہر صبح ہر شام اس کے اعمال آسمان پر چڑھتے رہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس کھجور کا ایک خوشہ لایا گیا۔ تو آپ نے اسی آیت کا پہلا حصہ تلاوت فرمایا اور فرمایا کہ پاک درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے منقول ہے کہ ہم آنحضور ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ جو آپ نے فرمایا مجھے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے جو مسلمان کے مشابہ ہے۔ جس کے پتے نہیں جھڑتے نہ جاڑوں میں نہ گرمیوں میں جو اپنا پھل ہر موسم میں لاتا رہتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں میرے دل میں آیا کہ کہہ دوں وہ درخت کھجور کا ہے۔ لیکن میں نے دیکھا کہ مجلس میں حضرت ابوبکر ہیں حضرت عمر ہیں اور وہ خاموش ہیں تو میں بھی چپ کا ہو رہا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا وہ درخت کھجور کا ہے۔ جب یہاں سے اٹھ کر چلے تو میں نے اپنے والد حضرت عمر ؓ سے یہ ذکر کیا۔ تو آپ نے فرمایا پیارے بچے اگر تم یہ جواب دے دیتے تو مجھے تو تمام چیزوں کے مل جانے سے بھی زیادہ محبوب تھا۔ حضرت مجاہد ؒ کا بیان ہے کہ میں مدینہ شریف تک حضرت ابن عمر ؓ کے ساتھ رہا لیکن سوائے ایک حدیث کے اور کوئی روایت انہیں رسول اللہ ﷺ سے کرتے ہوئے نہیں سنا اس میں ہے کہ یہ سوال آپ نے اس وقت کیا۔ جب آپ کے سامنے کھجور کے درخت کے بیچ کا گودا لایا گیا تھا۔ میں اس لئے خاموش رہا کہ میں اس مجلس میں سب سے کم عمر تھا۔ اور روایت میں ہے کہ جواب دینے والوں کا خیال اس وقت جنگلی درختوں کی طرف چلا گیا۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ کسی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ حضور مالدار لوگ درجات میں بہت بڑھ گئے۔ آپ نے فرمایا کہ یاد رکھو اگر تمام دنیا کی چیزیں لگ کر انبار لگا دو تو بھی وہ آسمان تک نہیں پہنچ سکتے ہیں۔ تجھے ایسا عمل بتلاؤں جس کی جڑ مضبوط اور جس کی شاخیں آسمان میں ہیں اس نے پوچھا وہ کیا ؟ فرمایا دعا (لا الہ الا اللہ واللہ اکبر و سبحان اللہ والحمد للہ) ہر فرض نماز کے بعد دس بار کہہ لیا کرو جس کی اصل مضبوط اور جس کی فرع آسمان میں ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں وہ پاکیزہ درخت جنت میں ہے۔ ہر وقت اپنا پھل لائے یعنی صبح شام یا ہر ماہ میں یا ہر دو ماہ میں یا ہر ششماہی میں یا ہر ساتویں مہینے یا ہر سال۔ لیکن الفاظ کا ظاہری مطلب تو یہ ہے کہ مومن کی مثال اس درخت جیسی ہے جس کے پھل ہر وقت جاڑے گرمی میں دن رات میں اترتے رہتے ہیں اسی طرح مومن کے نیک اعمال دن رات کے ہر وقت چڑھتے رہتے ہیں اس کے رب کے حکم سے یعنی کامل، اچھے، بہت اور عمدہ۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی عبرت ان کی سوچ سمجھ اور ان کی نصیحت کے لئے مثالیں واضح فرماتا ہے۔ پھر برے کلمہ کی یعنی کافر کی مثال بیان فرمائی۔ جس کی کوئی اصل نہیں، جو مضبوط نہیں، اس کی مثال اندرائن کے درخت سے دی۔ جسے حنظل اور شریان کہتے ہیں۔ ایک موقوف روایت میں حضرت انس ؓ سے بھی آیا ہے اور یہی روایت مرفوعا بھی آئی ہے۔ اس درخت کی جڑ زمین کی تہ میں نہیں ہوتی جھٹکا مارا اور اکھڑ آیا۔ اسی طرح سے کفر بےجڑ اور بےشاخ ہے، کافر کا نہ کوئی نیک عمل چڑھے نہ مقبول ہو۔
And the similitude of a bad saying that is the word of unbelief is as a bad tree a colocynth uprooted from upon the earth having no stability no fixing or foundation. Similarly the word of unbelief has no foundation and no shoot or blessing.