To obey and speak good; so when the manifest command came – it would have been better for them if they had remained faithful to Allah. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
ويقول الذين آمنوا بالله ورسوله: هلا نُزِّلت سورة من الله تأمرنا بجهاد الكفار، فإذا أُنزِلت سورة محكمة بالبيان والفرائض وذُكر فيها الجهاد، رأيت الذين في قلوبهم شك في دين الله ونفاق ينظرون إليك -أيها النبي- نظر الذي قد غُشِيَ عليه خوفَ الموت، فأولى لهؤلاء الذين في قلوبهم مرض أن يطيعوا الله، وأن يقولوا قولا موافقًا للشرع. فإذا وجب القتال وجاء أمر الله بِفَرْضه كره هؤلاء المنافقون ذلك، فلو صدقوا الله في الإيمان والعمل لكان خيرًا لهم من المعصية والمخالفة.
ایمان کی دلیل حکم جہاد کی تعمیل ہے اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ مومن تو جہاد کے حکم کی تمنا کرتے ہیں پھر جب اللہ تعالیٰ جہاد کو فرض کردیتا ہے اور اس کا حکم نازل فرما دیتا ہے تو اس سے اکثر لوگ ہٹ جاتے ہیں، جیسے اور آیت میں ہے آیت (اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ قِيْلَ لَھُمْ كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ 77) 4۔ النسآء :77) یعنی کیا تو نے انہیں نہیں دیکھا جن لوگوں سے کہا گیا کہ تم اپنے ہاتھوں کو روک لو اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں سے ایک فریق لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگا جیسے اللہ کا ڈر ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اور کہنے لگے اے ہمارے رب ہم پر تو نے جہاد کیوں فرض کردیا تو نے ہم کو قریب کی مدت تک ڈھیل کیوں نہ دی ؟ تو کہہ کہ دنیا کی متاع بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں کے لئے آخرت بہت ہی بہتر ہے اور تم پر بالکل ذرا سا بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔ پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ ایمان والے تو جہاد کے حکموں کی آیتوں کے نازل ہونے کی تمنا کرتے ہیں لیکن منافق لوگ جب آن آیتوں کو سنتے ہیں تو بوجہ اپنی گبھراہٹ بوکھلاہٹ اور نامردی کے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس طرح تجھے دیکھنے لگتے ہیں جیسے موت کی غشی والا۔ پھر انہیں مرد میدان بننے کی رغبت دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ ان کے حق میں بہتر تو یہ ہوتا کہ یہ سنتے مانتے اور جب موقعہ آجاتا معرکہ کارزار گرم ہوتا تو نیک نیتی کے ساتھ جہاد کر کے اپنے خلوص کا ثبوت دیتے پھر فرمایا قریب ہے کہ تم جہاد سے رک جاؤ اور اس سے بچنے لگو تو زمین میں فساد کرنے لگو اور صلہ رحمی توڑنے لگو یعنی زمانہ جاہلیت میں جو حالت تمہاری تھی وہی تم میں لوٹ آئے پس فرمایا ایسے لوگوں پر اللہ کی پھٹکار ہے اور یہ رب کی طرف سے بہرے اندھے ہیں۔ اس میں زمین میں فساد کرنے کی عموما اور قطع رحمی کی خصوصا ممانعت ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں اصلاح اور صلہ رحمی کرنے کی ہدایت کی ہے اور ان کا حکم فرمایا ہے، صلہ رحمی کے معنی ہیں قرابت داروں سے بات چیت میں کام کاج میں، سلوک و احسان کرنا اور ان کی مالی مشکلات میں ان کے کام آنا۔ اس بارے میں بہت سی صحیح اور حسن حدیثیں مروی ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو پیدا کرچکا تو رحم کھڑا ہوا اور رحمن سے چمٹ گیا اس سے پوچھا گیا کیا بات ہے ؟ اس نے کہا یہ مقام ہے ٹوٹنے سے تیری پناہ میں آنے کا اس پر اللہ عزوجل نے فرمایا کیا تو اس سے راضی نہیں ؟ کہ تیرے ملانے والے کو میں ملاؤں اور تیرے کاٹنے والے کو میں کاٹ دوں ؟ اس نے کہا ہاں اس پر میں بہت خوش ہوں اس حدیث کو بیان فرما کر پھر راوی حدیث حضرت ابوہریرہ نے فرمایا اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو (فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ 22) 47۔ محمد :22) ، اور سند سے ہے کہ خود حضور ﷺ نے فرمایا۔ ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کوئی گناہ اتنا بڑا اور اتنا برا نہیں جس کی بہت جلدی سزا دنیا میں اور پھر اس کی برائی آخرت میں بہت بری پہنچتی ہو بہ نسبت سرکشی بغاوت اور قطع رحمی کے۔ مسند احمد میں ہے جو شخص چاہے کہ اس کی عمر بڑی ہو اور روزی کشادہ وہ وہ صلہ رحمی کرے۔ اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے کہا میرے نزدیکی قرابت دار مجھ سے تعلق توڑتے رہتے ہیں اور میں انہیں معاف کرتا رہتا ہوں وہ مجھ پر ظلم کرتے ہیں اور میں ان کے ساتھ احسان کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برائیاں کرتے رہتے ہیں تو کیا میں ان سے بدلہ نہ لوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں اگر ایسا کرو گے تو تم سب کے سب چھوڑ دئیے جاؤ گے، تو صلہ رحمی پر ہی رہ اور یاد رکھ کہ جب تک تو اس پر باقی رہے گا اللہ کی طرف سے تیرے ساتھ ہر وقت معاونت کرنے والا رہے گا۔ بخاری وغیرہ میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا صلہ رحمی عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہے حقیقتًا صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو کسی احسان کے بدلے احسان کرے بلکہ صحیح معنی میں رشتے ناطے ملانے والا وہ ہے کہ گو تو اسے کاٹتا جائے وہ تجھ سے جوڑتا جائے۔ مسند احمد میں ہے کہ صلہ رحمی قیامت کے دن رکھی جائے گی اس کی رانیں ہوں مثل ہرن کی رانوں کے وہ بہت صاف اور تیز زبان سے بولے گی پس وہ کاٹ دیا جائے گا جو اسے کاٹتا تھا اور وہ ملایا جائے گا جو اسے ملاتا تھا۔ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے رحم کرنے والوں پر رحمن بھی رحم کرتا ہے۔ تم زمین والوں پر رحم کرو آسمانوں والا تم پر رحم کرے گا۔ رحم رحمان کی طرف سے ہے اس کے ملانے والے کو اللہ ملاتا ہے اور اس کے توڑنے والے کو اللہ تعالیٰ خود توڑ دیتا ہے۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی بیمار پرسی کے لئے لوگ گئے تو آپ ﷺ فرمانے لگے تم نے صلہ رحمی کی ہے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں اللہ عزوجل نے فرمایا ہے میں رحمن ہوں اور رحم کا نام میں نے اپنے نام پر رکھا ہے اسے جوڑنے والے کو میں جوڑوں گا اور اس کے توڑنے والے کو میں توڑ دوں گا اور حدیث میں ہے آپ ﷺ فرماتے ہیں روحیں ملی جلی ہیں جو روز ازل میں میل کرچکی ہیں وہ یہاں یگانگت برتتی ہیں اور جن میں وہاں نفرت رہی ہے یہاں بھی دوری رہتی ہے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں جب زبانی دعوے بڑھ جائیں عملی کام گھٹ جائیں، زبانی میل جول ہو، دلی بغض و عداوت ہو، رشتے دار رشتے دار سے بدسلوکی کرے اس وقت ایسے لوگوں پر لعنت اللہ نازل ہوتی ہے اور ان کے کان بہرے اور آنکھیں اندھی کردی جاتی ہیں۔ اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔ واللہ اعلم۔
would be to offer obedience and honourable words that is words that are kind to you. Then when the matter has been resolved upon that is to say when fighting has been prescribed if they are loyal to God in faith and obedience it will be better for them the sentence beginning with law ‘if’ constitutes the response to idhā ‘when’.