Indeed those who disbelieved and prevented others from Allah’s way, and opposed the Noble Messenger after the guidance had become clear to them – they cannot harm Allah in the least; and soon He will squander away their deeds. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
إن الذين جحدوا أن الله هو الإله الحق وحده لا شريك له، وصدوا الناس عن دينه، وخالفوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فحاربوه من بعد ما جاءتهم الحجج والآيات أنه نبي من عند الله، لن يضروا دين الله شيئًا، وسيُبْطِل ثواب أعمالهم التي عملوها في الدنيا؛ لأنهم لم يريدوا بها وجه الله تعالى.
نیکیوں کو غارت کرنے والی برائیوں کی نشاندہی اللہ سبحانہ وتعالیٰ خبر دیتا ہے کہ کفر کرنے والے راہ اللہ کی بندش کرنے والے رسول ﷺ کی مخالفت کرنے والے ہدایت کے ہوتے ہوئے گمراہ ہونے والے اللہ کا تو کچھ نہیں بگاڑتے بلکہ اپنا ہی کچھ کھوتے ہیں کل قیامت والے دن یہ خالی ہاتھ ہوں گے ایک نیکی بھی ان کے پاس نہ ہوگی۔ جس طرح نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں اسی طرح اس کے بدترین جرم و گناہ ان کی نیکیاں برباد کردیں گے۔ امام محمد بن نصر مروزی ؒ اپنی کتاب الصلوۃ میں حدیث لائے ہیں کہ صحابہ کا خیال تھا کہ (لا الہ الا اللہ) کے ساتھ کوئی گناہ نقصان نہیں دیتا جیسے کہ شرک کے ساتھ کوئی نیکی نفع نہیں دیتی اس پر اصحاب رسول اس سے ڈرنے لگے کہ گناہ نیکیوں کو باطل نہ کردیں۔ دوسری سند سے مروی ہے کہ صحابہ کرام کا خیال تھا کہ ہر نیکی بالیقین مقبول ہے یہاں تک کہ یہ آیت اتری تو کہنے لگے کہ ہمارے اعمال برباد کرنے والی چیز کبیرہ گناہ اور بدکاریاں کرنے والے پر انہیں خوف رہتا تھا اور ان سے بچنے والے کے لئے امید رہتی تھی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے باایمان بندوں کو اپنی اور اپنے نبی کی اطاعت کا حکم دیتا ہے جو ان کے لئے دنیا اور آخرت کی سعادت کی چیز ہے اور مرتد ہونے سے روک رہا ہے جو اعمال کو غارت کرنے والی چیز ہے۔ پھر فرماتا ہے اللہ سے کفر کرنے والے راہ اللہ سے روکنے والے اور کفر ہی میں مرنے والے اللہ کی بخشش سے محروم ہیں۔ جیسے فرمان ہے کہ اللہ شرک کو نہیں بخشتا اس کے بعد جناب باری عز اسمہ فرماتا ہے کہ اے میرے مومن بندو تم دشمنوں کے مقابلے میں عاجزی کا اظہار نہ کرو اور ان سے دب کر صلح کی دعوت نہ دو حالانکہ قوت و طاقت میں زور و غلبہ میں تعداد و اسباب میں تم قوی ہو۔ ہاں جبکہ کافر قوت میں، تعداد میں، اسباب میں تم سے زیادہ ہوں اور مسلمانوں کا امام مصلحت صلح میں ہی دیکھے تو ایسے وقت بیشک صلح کی طرف جھکنا جائز ہے جیسے کہ خود رسول کریم ﷺ نے حدیبیہ کے موقع پر کیا جبکہ مشرکین مکہ نے آپ ﷺ کو مکہ جانے سے روکا تو آپ ﷺ نے دس سال تک لڑائی بند رکھنے اور صلح قائم رکھنے پر معاہدہ کرلیا پھر ایمان والوں کو بہت بڑی بشارت و خوش خبری سناتا ہے کہ اللہ تمہارے ساتھ ہے اس وجہ سے نصرت و فتح تمہاری ہی ہے تم یقین مانو کہ تمہاری چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی وہ ضائع نہ کرے گا بلکہ اس کا پورا پورا اجر وثواب تمہیں عنایت فرمائے گا۔ واللہ اعلم۔
Indeed those who disbelieve and bar from the way of God the path of truth and defy the Messenger opposing him after the guidance this is the meaning of ‘the way of God’ has become clear to them they will not hurt God in any way and He will make their works fail He will invalidate them good works such as voluntary alms and the like and so they will not find any reward for it in the Hereafter — this was revealed either regarding those Meccan participants at the battle of Badr who provided food for the needy or regarding the Jewish tribes of Qurayza and al-Nadīr.