“And you will come to know of its tidings, after a while.” — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
ولتعلمن- أيها المشركون- خبر هذا القرآن وصدقه، حين يَغْلب الإسلام، ويدخل الناس فيه أفواجًا، وكذلك حين يقع عليكم العذاب، وتنقطع عنكم الأسباب.
اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ کو حکم دیتا ہے کہ لوگوں میں آپ اعلان کردیں کہ میں تبلیغ دین پر اور احکام قرآن پر تم سے کوئی اجرت و بدلہ نہیں مانگتا۔ اس سے میرا مقصود کوئی دنیوی نفع حاصل کرنا نہیں اور نہ میں تکلف کرنے والا ہوں کہ اللہ نے نہ اتارا ہو اور میں جوڑ لوں۔ مجھے تو جو کچھ پہنچایا ہے وہی میں تمہیں پہنچا دیتا ہوں نہ کمی کروں نہ زیادتی اور میرا مقصود اس سے صرف رضائے رب اور مرضی مولیٰ ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں لوگوں جسے کسی مسئلہ کا علم ہو وہ اسے لوگوں سے بیان کر دے اور جو نہ جانتا ہو وہ کہہ دے کہ اللہ جانے۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے نبی ﷺ سے بھی یہی فرمایا کہ میں تکلف کرنے والا نہیں ہوں۔ یہ قرآن تمام انسانوں اور جنوں کے لئے نصیحت ہے جیسے اور آیت میں ہے تاکہ میں تمہیں اور جن جن لوگوں تک یہ پہنچے آگاہ اور ہوشیار کر دوں اور آیت میں ہے کہ جو شخص بھی اس سے کفر کرے وہ جہنمی ہے۔ میری باتوں کی حقیقت میرے کلام کی تصدیق میرے بیان کی سچائی میرے زبان کی صداقت تمہیں ابھی ابھی معلوم ہوجائے گی یعنی مرتے ہی، قیامت کے قائم ہوتے ہی۔ موت کے وقت یقین آجائے گا اور میری کہی ہوئی خبریں اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے۔ واللہ اعلم بالصواب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورة ص کی تفسیم ختم ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کے انعام و احسان پر اس کا شکر ہے۔
And you will assuredly come to know O disbelievers of Mecca its tiding the news of its truth in due time’ that is to say on the Day of Resurrection ‘ilm ‘knowing’ is here being used in the sense of ‘urf ‘experience’; the prefixed lām in la-ta‘lamunna ‘you will assuredly know’ is for an implicit oath in other words what is meant is wa’Llāhi la-ta‘lamunna ‘By God you will assuredly know’.