So Moosa turned back to his people, angry and grieving; he said, “O my people, had not your Lord given you a good promise? Did a long time pass away for you, or did you wish that your Lord’s wrath come upon you, therefore you broke your promise with me?” — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
فرجع موسى إلى قومه غضبان عليهم حزينًا، وقال لهم: يا قوم ألم يَعِدْكم ربكم وعدًا حسنًا بإنزال التوراة؟ أفطال عليكم العهد واستبطأتم الوعد، أم أردتم أن تفعلوا فعلا يحل عليكم بسببه غضب من ربكم، فأخلفتم موعدي وعبدتم العجل، وتركتم الالتزام بأوامري؟
بنی اسرائیل کا دریا پار جانا۔ حضرت موسیٰ ؑ جب دریا پار کر کے نکل گئے تو ایک جگہ پہنچے جہاں کے لوگ اپنے بتوں کے مجاور بن کر بیٹھے ہوئے تھے تو بنی اسرائیل کہنے لگے موسیٰ ہمارے لئے بھی ان کی طرح کوئی معبود مقرر کردیجئے۔ آپ نے فرمایا تم بڑے جاہل لوگ ہو یہ تو برباد شدہ لوگ ہیں اور ان کی عبادت بھی باطل ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تیس روزوں کا حکم دیا۔ پھر دس بڑھا دئیے گئے پورے چالیس ہوگئے دن رات روزے سے رہتے تھے اب آپ جلدی سے طور کی طرف چلے بنی اسرائیل پر اپنے بھائی ہارون کو خلیفہ مقرر کیا۔ وہاں جب پہنچے تو جناب باری تعالیٰ نے اس جلدی کی وجہ دریافت فرمائی۔ آپ نے جواب دیا کہ وہ بھی طور کے قریب ہی ہیں آرہے ہیں میں نے جلدی کی ہے کہ تیری رضامندی حاصل کرلوں اور اس میں بڑھ جاؤں۔ موسیٰ ؑ کے بعد پھر شرک۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تیرے چلے آنے کے بعد تیری قوم میں نیا فتنہ برپا ہوا اور انہوں نے گوسالہ پرستی شروع کردی ہے اس بچھڑے کو سامری نے بنایا اور انہیں اس کی عبادت میں لگا دیا ہے اسرائیلی کتابوں میں ہے کہ سامری کا نام بھی ہارون تھا حضرت موسیٰ ؑ کو عطا فرمانے کے لئے تورات کی تختیاں لکھ لی گئی تھی جیسے فرمان ہے (وَكَتَبْنَا لَهٗ فِي الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَّتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ۚ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَّاْمُرْ قَوْمَكَ يَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِهَا ۭ سَاُورِيْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِيْنَ01405) 7۔ الاعراف :145) یعنی ہم نے اس کے لئے تختیوں میں ہر شے کا تذکرہ اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی تھی اور کہہ دیا کہ اسے مضبوطی سے تھام لو اور اپنی قوم سے بھی کہو کہ اس پر عمدگی سے عمل کریں۔ میں تمہیں عنقریب فاسقوں کا انجام دکھا دوں گا۔ حضرت موسیٰ ؑ کو جب اپنی قوم کے مشرکانہ فعل کا علم ہوا تو سخت رنج ہوا اور غم وغصے میں بھرے ہوئے وہاں سے واپس قوم کی طرف چلے کہ دیکھو ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے انعامات کے باوجود ایسے سخت احمقانہ اور مشرکانہ فعل کا ارتکاب کیا۔ غم واندوہ رنج وغصہ آپ کو بہت آیا۔ واپس آتے ہی کہنے لگے کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے تم سے تمام نیک وعدے کئے تھے تمہارے ساتھ بڑے بڑے سلوک و انعام کئے لیکن ذرا سے وقفے میں تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بھلا بیٹھے بلکہ تم نے وہ حرکت کی جس سے اللہ کا غضب تم پر اتر پڑا تم نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا اس کا مطلق لحاظ نہ رکھا۔ اب بنی اسرائیل معذرت کرنے لگے کہ ہم نے یہ کام اپنے اختیار سے نہیں کیا بات یہ ہے کہ جو زیور فرعونیوں کے ہمارے پاس مستعار لئے ہوئے تھے ہم نے بہتر یہی سمجھا کہ انہیں پھینک دیں چناچہ ہم نے سب کے سب بطور پرہیزگاری کے پھینک دئیے۔ ایک روایت میں ہے کہ خود حضرت ہارون ؑ نے ایک گڑھا کھود کر اس میں آگ جلا کر ان سے فرمایا کہ وہ زیور سب اس میں ڈال دو۔ ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ حضرت ہارون ؑ کا ارادہ یہ تھا کہ سب زیور ایک جا ہوجائیں اور پگل کر ایک ڈلا بن جائے پھر جب موسیٰ ؑ آجائیں جیسا وہ فرمائیں کیا جائے۔ سامری نے اس میں وہ مٹی ڈال دی جو اس نے اللہ کے قاصد کے نشان سے لی تھی اور حضرت ہارون ؑ نے کہا آئیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیئے کہ وہ میری خواہش قبول فرما لے آپ کو کیا خبر تھی آپ نے دعا کی اس نے خواہش یہ کی کہ اس کا ایک بچھڑا بن جائے جس میں سے بچھڑے کی سی آواز بھی نکلے چناچہ وہ بن گیا اور بنی اسرائیل کے فتنے کا باعث ہوگیا پس فرمان ہے کہ اسی طرح سامری نے بھی ڈال دیا۔ حضرت ہارون ؑ ایک مرتبہ سامری کے پاس سے گزرے وہ اس بچھڑے کو ٹھیک ٹھاک کر رہا تھا۔ آپ نے پوچھا کیا کررہے ہو ؟ اس نے کہا وہ چیز بنا رہا ہوں جو نقصان دے اور نفع نہ دے۔ آپ نے دعا کی اے اللہ خود اسے ایسا ہی کردے اور آپ وہاں سے تشریف لے گئے سامری کی دعا سے یہ بچھڑا بنا اور آواز نکالنے لگا۔ بنی اسرائیل بہکاوے میں آگئے اور اس کی پرستش شروع کردی۔ اس کے سامنے سجدے میں گرپڑتے اور دوسری آواز پر سجدے سے سر اٹھاتے۔ یہ گروہ دوسرے مسلمانوں کو بھی بہکانے لگا کہ دراصل اللہ یہی ہے موسیٰ بھول کر اور کہیں اس کی جستجو میں چل دئیے ہیں وہ یہ کہنا بھول گئے کہ تمہارے رب یہی ہیں۔ یہ لوگ مجاور بن کر اس کے اردگرد بیٹھ گئے۔ ان کے دلوں میں اس کی محبت رچ گئی۔ یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ سامری اپنے سچے اللہ اور اپنے پاک دین اسلام کو بھول بیٹھا۔ ان کی بیوقوفی دیکھئے کہ یہ اتنا نہیں دیکھتے کہ وہ بچھڑا تو محض بےجان چیز ہے ان کی بات کا نہ تو جواب دے نہ سنے نہ دنیا آخرت کی کسی بات کا اسے اختیار نہ کوئی نفع نقصان اس کے ہاتھ میں۔ آواز جو نکلتی تھی اس کی وجہ بھی صرف یہ تھی کہ پیچے کے سوراخ میں سے ہوا گزر کر منہ کے راستے نکلتی تھی اسی کی آواز آتی تھی۔ اس بچھڑے کا نام انہوں نے بہموت رکھ چھوڑا تھا۔ ان کی دوسری حماقت دیکھئے کہ چھوٹے گناہ سے بچنے کے لئے بڑا گناہ کرلیا۔ فرعونیوں کی امانتوں سے آزاد ہونے کے لئے شرک شروع کردیا۔ یہ تو وہی مثال ہوئی کہ کسی عراقی نے عبداللہ بن عمر ؓ سے پوچھا کہ کپڑے پر اگر مچھر کا خون لگ جائے تو نماز ہوجائے گی یا نہیں ؟ آپ نے فرمایا ان عراقیوں کو دیکھو بنت رسول اللہ ﷺ کے لخت جگر کو تو قتل کردیں اور مچھر کے خون کے مسئلے پوچھتے پھریں ؟
Thereupon Moses returned to his people angry with them and sad extremely grieved. He said ‘O my people did not your Lord promise you a fair promise? that is a true promise that He will give you the Torah? Did the period the length of my absence from you seem too long for you or did you desire that wrath should become incumbent against you from your Lord by your worship of the golden calf and so you broke your tryst with me?’ and failed to follow after me?