“Therefore leaving the earth just as an empty plain.” — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
فيترك الأرض حينئذ منبسطة مستوية ملساء لا نبات فيها، لا يرى الناظر إليها مِن استوائها مَيْلا ولا ارتفاعًا ولا انخفاضًا.
پہاڑوں کا کیا ہوگا ؟ لوگوں نے پوچھا کہ قیامت کے دن یہ پہاڑ باقی رہیں گے یا نہیں ؟ ان کا سوال نقل کرکے جواب دیا جاتا ہے کہ یہ ہٹ جائیں گے، چلتے پھرتے نظر آئیں گے اور آخر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ زمین صاف چٹیل ہموار میدان کی صورت میں ہوجائے کی۔ قاع کے معنی ہموار صاف میدان ہے۔ صفصفا اسی کی تاکید ہے اور صفصف کے معنی بغیر روئیدگی کی زمین کے بھی ہیں لیکن پہلے معنی زیادہ اچھے ہیں اور دوسرے مرادی اور لازمی ہیں۔ نہ اس میں کوئی وادی رہے گی نہ ٹیلہ نہ اونچان رہے گی نہ نچائی۔ ان دہشت ناک امور کے ساتھ ہی ایک آواز دینے والا آواز دے گا جس کی آواز پر ساری مخلوق لگ جائے گی، دوڑتی ہوئی حسب فرمان ایک طرف چلی جارہی ہوگی نہ ادھر ادھر ہوگی نہ ٹیڑھی بانکی چلے گی کاش کہ یہی روش دنیا میں رکھتے اور اللہ کے احکام کی بجا آوری میں مشغول رہتے۔ لیکن آج کی یہ روش بالکل بےسود ہے۔ اس دن تو خوب دیکھتے سنتے بن جائیں گے اور آواز کے ساتھ فرماں برداری کریں گے۔ اندھیری جگہ حشر ہوگا آسمان لپیٹ لیا جائے گا ستارے جھڑپڑیں گے سورج چاند مٹ جائے گا آواز دینے والے کی آواز پر سب چل کھڑے ہوں گے۔ اس ایک میدان میں ساری مخلوق جمع ہوگی مگر اس غضب کا سناٹا ہوگا کہ آداب الٰہی کی وجہ سے ایک آواز نہ اٹھے گی۔ بالکل سکون وسکوت ہوگا صرف پیروں کی چاپ ہوگی اور کانا پھوسی۔ چل کر جا رہے ہوں گے تو پیروں کی چاپ تو لامحالہ ہونی ہی ہے اور باجازت الٰہی کبھی کبھی کسی کسی حال میں بولیں گے بھی۔ لیکن چلنا بھی باادب اور بولنا بھی باادب۔ جیسے ارشاد ہے، (يَوْمَ يَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۚ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَّسَعِيْدٌ01005) 11۔ ھود :105)۔ یعنی جس دن وہ میرے سامنے حاضر ہوں گے کسی کی مجال نہ ہوگی کہ بغیرمیری اجازت کے زبان کھول لے۔ بعض نیک ہوں گے اور بعض بد ہوں گے۔
then He will leave them a level hollow a flattened level surface