And is it not possible for the One Who created the heavens and the earth to create the likes of them? It is surely possible, why not? And He is the Great Creator, the All Knowing of everything. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
أوليس الذي خلق السموات والأرض وما فيهما بقادر على أن يخلق مثلهم، فيعيدهم كما بدأهم؟ بلى، إنه قادر على ذلك، وهو الخلاق لجميع المخلوقات، العليم بكل ما خلق ويَخْلُقُ، لا يخفى عليه شيء.
اللہ ہر چیز پر قادر۔ اللہ تعالیٰ اپنی زبردست قدرت بیان فرما رہا ہے کہ اس نے آسمانوں کو اور ان کی سب چیزوں کو پیدا کیا۔ زمین کو اس کے اندر کی سب چیزوں کو بھی اسی نے بنایا۔ پھر اتنی بڑی قدرتوں والا انسانوں جیسی چھوٹی مخلوق کو پیدا کرنے سے عاجز آجائے یہ تو عقل کے بھی خلاف ہے، جیسے فرمایا (لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 57) 40۔ غافر :57) یعنی آسمان و زمین کی پیدائش انسانی پیدائش سے بہت بڑی اور اہم ہے، یہاں بھی فرمایا کہ وہ اللہ جس نے آسمان و زمین کو پیدا کردیا وہ کیا انسانوں جیسی کمزور مخلوق کو پیدا کرنے سے عاجز آجائے گا ؟ اور جب وہ قادر ہے تو یقینا انہیں مار ڈالنے کے بعد پھر وہ انہیں جلا دے گا۔ جس نے ابتدا پیدا کیا ہے اس پر اعادہ بہت آسان ہے جیسے اور آیت میں ہے (اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى ۭ بَلٰٓي اِنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 33) 46۔ الأحقاف :33) ، کیا وہ نہیں دیکھتے کہ جس اللہ نے زمین و آسمان کو بنادیا اور ان کی پیدائش سے عاجز نہ آیا نہ تھکا کیا وہ مردوں کے زندہ کرنے پر قادر نہیں ؟ بیشک قادر ہے بلکہ وہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔ وہی پیدا کرنے والا اور بنانے والا، ایجاد کرنے والا اور خالق ہے۔ ساتھ ہی دانا، بینا اور رتی رتی سے واقف ہے۔ وہ تو جو کرنا چاہتا ہے اس کا صرف حکم دے دینا کافی ہوتا ہے۔ مسند کی حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو، تم سب فقیر ہو مگر جسے میں غنی کردوں۔ میں جواد ہوں، میں ماجد ہوں، میں واجد ہوں۔ جو چاہتا ہوں کرتا ہوں۔ میرا انعام بھی ایک کلام ہے اور میرا عذاب بھی کلام ہے۔ میں جس چیز کو کرنا چاہتا ہوں کہہ دیتا ہوں کہ ہو جاوہ ہوجاتی ہے۔ ہر برائی سے اس حی وقیوم اللہ کی ذات پاک ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے، جس کے ہاتھ میں آسمانوں اور زمینوں کی کنجیاں ہیں۔ وہ سب کا خالق ہے، وہی اصلی حاکم ہے، اسی کی طرف قیامت کے دن سب لوٹائے جائیں گے وہی عادل و منعم اللہ انہیں سزا دے گا۔ اور جگہ فرمان ہے پاک ہے وہ اللہ جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی ملکیت ہے۔ اور آیت میں ہے کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا اختیار ہے ؟ اور فرمان ہے (تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ ۡ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرُۨ ۙ) 67۔ الملک :1) پس ملک و ملکوت دونوں کے ایک ہی معنی ہیں جیسے رحمت و رحموت اور رہبت و رہبوت اور جبرو جبروت۔ بعض نے کہا ہے کہ ملک سے مراد جسموں کا عالم اور ملکوت سے مراد روحوں کا عالم ہے۔ لیکن صحیح بات پہلی ہی ہے اور یہی قول جمہور مفسرین کا ہے۔ حضرت حذیفہ بن یمان ؓ فرماتے ہیں ایک رات میں تہجد کی نماز میں اللہ کے رسول ﷺ کی اقتدا میں کھڑا ہوگیا آپ نے سات لمبی سورتیں (یعنی پونے دس پارے) سات رکعت میں پڑھیں سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر رکوع سے سر اٹھا کر آپ یہ پڑھتے تھے (الحمدللہ ذی الملکوت والجبروت والکبریاء والعظمتہ) پھر آپ کا رکوع ایام کے مناسب ہی لمبا تھا اور سجدہ بھی مثل رکوع کے تھا میری تو یہ حالت ہوگئی تھی کہ ٹانگیں ٹوٹنے لگیں (ابوداؤد وغیرہ) انہی حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ کو آپ نے رات کی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا آپ نے یہ دعا پڑھ کر پھر قرأت شروع کی (اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر ذی ذی الملکوت والجبروت والکبریاء والعظمتہ) پھر پوری سورة بقرہ پڑھ کر رکوع کیا اور رکوع میں بھی قریب قریب اتنی ہی دیر ٹھہرے رہے اور سبحان ربی العظیم پڑھتے رہے پھر اپنا سر رکوع سے اٹھایا اور تقریباً اتنی ہی دیر کھڑے رہے اور لربی الحمد پڑھتے رہے۔ پھر سجدے میں گئے وہ بھی تقریباً قیام کے برابر تھا اور سجدے میں حضور ﷺ سبحان ربی الاعلی پڑھتے رہے۔ پھر سجدے سے سر اٹھایا آپ کی عادت مبارک تھی کہ دونوں سجدوں کے درمیان بھی اتنی دیر بیٹھے رہتے تھے جتنی دیر سجدوں میں لگاتے تھے اور رب اغفرلی رب اغفرلی پڑھتے رہے۔ چار رکعت آپ نے ادا کیں سورة بقرہ سورة آل عمران سورة نساء اور سورة مائدہ کی تلاوت کی۔ حضرت شعبہ کو شک ہے کہ سورة مائدہ کہا یا سورة انعام ؟ نسائی وغیرہ میں ہے حضرت عوف بن مالک اشجعی ؓ سے روایت ہے کہ ایک رات میں نے حضرت ﷺ کے ساتھ تہجد کی نماز پڑھی آپ نے سورة بقرہ کی تلاوت فرمائی، ہر اس آیت پر جس میں رحمت کا ذکر ہوتا آپ ٹھہرتے اور اللہ تعالیٰ سے رحمت طلب کرتے اور ہر اس آیت پر جس میں عذاب کا ذکر ہوتا آپ ٹھہرتے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کرتے پھر آپ نے رکوع کیا وہ بھی قیام سے کچھ کم نہ تھا اور رکوع میں یہ فرماتے تھے (سبحان ذی الجبروت والملکوت و الکبریاء والعظمتہ) پھر آپ نے سجدہ کیا وہ بھی قیام کے قریب قریب تھا۔ اور سجدے میں بھی یہی پڑھتے پھر دوسری رکعت میں سورة آل عمران پڑھی۔ پھر اسی طرح ایک ایک سورت ایک ایک رکعت میں پڑھتے رہے۔
Is not He Who created the heavens and the earth in all their immensity able to create the like of them? namely human beings in all their minuteness? Yes indeed He is able to do this — God Himself replies here. And He is the Creator khallāq means Creator of many things the Knower of all things.