And Allah calls to the abode of peace, and guides whomever He wills on the Straight Path. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
والله يدعوكم إلى جناته التي أعدها لأوليائه، ويهدي مَن يشاء مِن خَلْقه، فيوفقه لإصابة الطريق المستقيم، وهو الإسلام.
دنیا اور اس کی حقیقت۔ دنیا کی ٹیپ ٹاپ اور اس کی دو گھڑی کی سہانی رونق پھر اس کی بربادی اور بےرونقی کی مثال زمین کے سبزے سے دی جا رہی ہے کہ بادل سے پانی برسا زمین لہلہا اٹھی۔ طرح طرح کی سبزیاں، چارے، پھل پھول، کھیت باغات، پیدا ہوگئے۔ انسانوں کے کھانے کی چیزں، جانوروں کے چرنے چگنے کی چیزیں، چاروں طرف پھیل پڑیں، زمین سرسبز ہوگئی، ہر چہار طرف ہریالی ہی ہریالی نظر آنے لگی، کھیتی والے خوش ہوگئے، باغات والے پھولے نہیں سماتے کہ اب کے پھل اور انجاج بکثرت ہے۔ ناگہاں آندھیوں کے جھکڑ چلنے لگلے، برف باری ہوئی، اولے گرے، پالہ پڑا، پھل چھوڑ پتے بھی جل گئے۔ درخت جڑوں سے اکھڑ گئے، تازگی خشکی سے بدل گئی، پھل ٹھٹھر گئے۔ ، جل گئے، کھیت و باغات ایسے ہوگئے گویا تھے ہی نہیں اور جو چیز کل تھی بھی آج نہیں تو گویا کل بھی نہ تھی۔ حدیث میں ہے بڑے دنیادار کروڑ پتی کو جو ہمیشہ ناز و نعمت میں ہی رہا تھا، لاکر جہنم میں ایک غوطہ دے کر پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ کہو تمہاری زندگی کیسی گزری ؟ وہ جواب دے گا کہ میں نے تو کبھی کوئی راحت نہیں دیکھی۔ کبھی آرام کا نام بھی نہیں سنا۔ اسی طرح دنیا کی زندگی میں ایک گھڑی بھی جس پر آرام کی نہیں گزری تھی اسے لا یا جائے گا۔ جنت میں ایک غوطہ کھلا کر پوچھا جائے گا کہ کہو دنیا میں کیسے رہے ؟ جواب دے گا کہ پوری عمر کبھی رنج و غم کا نام بھی نہیں سنا کبھی تکلیف اور دکھ دیکھا بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح عقلمندوں کے لیے واقعات واضح کرتا ہے تاکہ وہ عبرت حاصل کرلیں۔ ایسا نہ ہو اس فانی چند روزہ دنیا کے ظاہری چکر میں پھنس جائیں اور اس ڈھل جانے والے سائے کو اصلی اور پائیدار سمجھ لیں۔ اس کی رونق دو روزہ ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو اپنے چاہنے والوں سے بھاگتی ہے۔ اور نفرت کرنے والوں سے لپٹتی ہے۔ دنیا کی زندگی کی مثال اسی طرح ہے اور بھی بہت سی آیتوں میں بیان ہوئی ہے۔ مثلاً سورة کہف کی (وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِيْمًا تَذْرُوْهُ الرِّيٰحُ ۭ وَكَان اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا 45) 18۔ الكهف :45) میں اور سورة زمر اور سورة حدید میں۔ خلیفہ مروان بن حکم نے منبر پر (وَظَنَّ اَهْلُهَآ اَنَّھُمْ قٰدِرُوْنَ) 24) 10۔ یونس :24) پڑھ کر فرمایا میں نے تو اسی طرح پڑھی ہے لیکن قرآن میں یہ لکھی ہوئی نہیں حضرت ابن عباس کے صاحبزادے نے فرمایا میرے والد بھی اسی طرح پڑھتے تھے۔ ابن عباس کے پاس جب آدمی بھیجا گیا تو آپ نے فرمایا ابی بن کعب کی قرآت بھی یونہی ہے۔ لیکن یہ قرآت غریبہ ہے۔ اور گویا یہ جملہ تفسیر یہ ہے واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ سلامتی کے گھر کی طرف اپنے بندوں کو بلاتا ہے جو دنیا کی طرف فانی نہیں بلکہ باقی ہے دنیا کی طرف دو دن کے لیے زینت دار نہیں بلکہ ہمیشہ کی نعمتوں اور ابدی راحتوں والی ہے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں مجھ سے کہا گیا تیری آنکھیں سو جائیں، تیرا دل جاگتا رہے اور تیرے کان سنتے رہیں چناچہ ایسا ہی ہوا۔ پھر فرمایا گیا ایک سردار نے ایک گھر بنایا۔ وہاں دعوت کا انتظام کیا۔ ایک بلانے والے کو بھیجا۔ پس جس نے اس کی دعوت قبول کی۔ گھر میں داخل ہوا اور دسترخوان سے کھانا کھایا جس نے نہ قبول کی نہ اسے اپنے گھر میں آٹا ملا نہ دعوت کا کھانا میسر ہوا نہ سردار اس سے خوش ہوا۔ پس اللہ سردار ہے اور گھر اسلام ہے اور دستر خوان جنت ہے اور بلانے والے حضرت محمد ﷺ ہیں یہ روایت مرسل ہے۔ دوسری متصل بھی ہے۔ اس میں ہے کہ ایک دن ہمارے مجمع میں آکر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خواب میں میرے پاس جبرائیل و میکائیل آئے جبرائیل سرہانے اور میکائیل پیروں کی طرف کھڑے ہوگئے۔ ایک نے دوسرے سے کہا اس کی مثال بیان کرو۔ پھر یہ مثال بیان کی۔ پس جس نے تیری دعوت قبول کی وہ اسلام میں داخل ہوا اور جو اسلام لایا وہ جنت میں پہنچا اور و وہاں کھایا پیا۔ ایک حدیث میں ہے ہر دن سورج کے طلوع ہونے کے وقت اس کے دونوں جانب دو فرشتے ہوتے ہیں جو باآواز بلند انسانوں اور جنوں کے سوا سب کو سنا کر کہتے ہیں کہ لوگو ! اپنے رب کی طرف آؤ۔ جو کم ہو یا کافی ہو وہ بہتر ہے اس سے جو زیادہ ہو اور غافل کردے۔ قرآن فرماتا ہے لوگو ! اللہ تعالیٰ تمہیں دارالسلام کی طرف بلاتا ہے (ابن ابی حاتم اور ابن جریر)۔
And God summons to the Abode of Peace that is the Abode of security which is Paradise by summoning people to faith and He guides whomever He wills that he be guided to a straight path the religion of Islam.