And when he matured to his full strength, We bestowed him wisdom and knowledge; and this is how We reward the virtuous. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
ولما بلغ يوسف منتهى قوته في شبابه أعطيناه فهمًا وعلمًا، ومثل هذا الجزاء الذي جزينا به يوسف على إحسانه نجزي المحسنين على إحسانهم. وفي هذا تسلية للرسول صلى الله عليه وسلم.
بازار مصر سے شاہی محل تک رب کا لطف بیان ہو رہا ہے کہ جس نے آپ کو مصر میں خریدا، اللہ نے اس کے دل میں آپ کی عزت و وقعت ڈال دی۔ اس نے آپ کے نورانی چہرے کو دیکھتے ہی سمجھ لیا کہ اس میں خیر و صلاح ہے۔ یہ مصر کا وزیر تھا۔ اس کا نام قطفیر تھا۔ کوئی کہتا ہے اطفیر تھا۔ اس کے باپ کا نام دوحیب تھا۔ یہ مصر کے خزانوں کا داروغہ تھا۔ مصر کی سلطنت اس وقت ریان بن ولید کے ہاتھ تھی۔ یہ عمالیق میں سے ایک شخص تھا۔۔ عزیز مصر کی بیوی صاحبہ کا نام راعیل تھا۔ کوئی کہتا ہے زلیخا تھا۔ یہ رعابیل کی بیٹی تھیں۔ ابن عباس کا بیان ہے کہ مصر میں جس نے آپ کو خریدا اس کا نام مالک بن ذعربن قریب بن عنق بن مدیان بن ابراہیم تھا۔ واللہ اعلم۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں سب سے زیادہ دوربین اور دور رس اور انجام پر نظریں رکھنے والے اور عقلمندی سے تاڑنے والے تین شخص گزرے ہیں۔ ایک تو یہی عزیز مصر کہ بیک نگاہ حضرت یوسف کو تاڑ لیا گیا اور جاتے ہی بیوی سے کہا کہ اسے اچھی طرح آرام سے رکھو۔ دوسری وہ بچی جس نے حضرت موسیٰ ؑ کو بیک نگاہ جان لیا اور جا کر باپ سے کا کہ اگر آپ کو آدمی کی ضرورت ہے تو ان سے معاملہ کرلیجئے یہ قوی اور باامانت شخص ہے۔ تیسرے حضرت صدیق اکبر ؓ کہ آپ نے دنیا سے رخت ہوتے ہوئے خلافت حضرت عمر ؓ جیسے شخص کو سونپی۔ یہاں اللہ تعالیٰ اپنا ایک اور احسان بیان فرما رہا ہے کہ بھائیوں کے پھندے سے ہم نے چھڑایا پھر ہم نے مصر میں لا کر یہاں کی سرزمین پر ان کا قدم جما دیا۔ کیونکہ اب ہمارا یہ ارادہ پورا ہونا تھا کہ ہم اسے تعبیر خواب کا کچھ علم عطا فرمائیں۔ اللہ کے ارادہ کو کون ٹال سکتا ہے۔ کون روک سکتا ہے ؟ کون خلاف کرسکتا ہے ؟ وہ سب پر غالب ہے۔ سب اس کے سامنے عاجز ہیں جو وہ چاہتا ہے ہو کر ہی رہتا ہے جو ارادہ کرتا ہے کر چکتا ہے۔ لیکن اکثر لوگ علم سے خالی ہوتے ہیں۔ اس کی حکمت کو مانتے ہیں نہ اس کی حکمت کو جانتے ہیں نہ اس کی باریکیوں پر ان کی نگاہ ہوتی ہے۔ نہ وہ اس کی حکمتوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ جب آپ کی عقل کامل ہوئی جب جسم اپنی نشو و نما تمام کرچکا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت عطا فرمائی اور اس سے آپ کو مخصوص کیا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہم نیک کاروں کو اسی طرح بھلا بدلہ دیتے ہیں۔ کہتے ہیں اس سے مراد تینتیس برس کی عمر ہے۔ یا تیس سے کچھ اوپر کی یا بیس کی یا چالیس کی یا پچیس کی یا تیس کی یا اٹھارہ کی۔ یا مراد جوانی کو پہنچنا ہے اور اس کے سوا اوراقوال بھی ہیں واللہ اعلم
And when he reached his prime — which was at 30 or 33 years of age — We gave him power of judgement wisdom and knowledge understanding in matters of religion before his call to prophethood. Thus just as We rewarded him We reward those who are virtuous to the good of their souls.