So when the governor saw his shirt torn from behind, he said, “Indeed this is a deception of women; undoubtedly the deception of women is very great.” — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
فلما رأى الزوج قميص يوسف شُقَّ من خلفه علم براءة يوسف، وقال لزوجته: إن هذا الكذب الذي اتهمتِ به هذا الشاب هو مِن جملة مكركن -أيتها النساء-، إنَّ مكركن عظيم.
الزام کی مدافعت اور بچے کی گواہی حضرت یوسف اپنے آپ کو بچانے کے لیے وہاں سے دروازے کی طرف دوڑے اور یہ عورت آپ کو پکڑنے کے ارادے سے آپ کے پیچھے بھاگی۔ پیچھے سے کرتا اس کے ہاتھ میں آگیا۔ زور سے اپنی طرف گھسیٹا۔ جس سے حضرت یوسف پیچھے کی طرف گر جانے کی قریب ہوگئے لیکن آپ نے آگے کو زور لگا کر دوڑ جاری رکھی اس میں کرتا پیچھے سے بالکل بےطرح پھٹ گیا اور دونوں دروازے پر پہنچ گئے دیکھتے ہیں کہ عورت کا خاوند موجود ہے۔ اسے دیکھتے ہی اس نے چال چلی اور فوراً ہی سارا الزام یوسف کے سر تھوپ دیا اور اپنی پاک دامنی بلکہ عصمت اور مظلومیت جتانے لگی۔ سوکھا سامنہ بنا کر اپنے خاوند سے اپنی بپتا اور پھر پاکیزگی بیان کرتے ہوئے کہتی ہے فرمائیے حضور آپ کی بیوی سے جو بدکاری کا ارادہ رکھے اس کی کیا سزا ہونی چاہیے ؟ قید سخت یا بری مار سے کم تو ہرگز کوئی سزا اس جرم کی نہیں ہوسکتی۔ اب جب کہ حضرت یوسف نے اپنی آبرو کو خطرے میں دیکھا اور خیانت کی بدترین تہمت لگتی دیکھی تو اپنے اوپر سے الزام ہٹانے اور صاف اور سچی حقیقت کے ظاہر کردینے کے لیے فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ یہی میرے پیچھے پڑی تھیں، میرے بھاگنے پر مجھے پکڑ رہی تھی، یہاں تک کہ میرا کرتا بھی پھاڑ دیا۔ اس عورت کے قبیلے سے ایک گواہ نے گواہی دی۔ اور مع ثبوت و دلیل ان سے کہا کہ پھٹے ہوئے پیرہن کو دکھ لو اگر وہ سامنے کے رخ سے پھٹا ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ عورت سچی ہے اور یہ جھوٹا ہے اس نے اسے اپنی طرف لانا چاہا اس نے اسے دھکے دیئے۔ روکا منع کیا ہٹایا اس میں سامنے سے کرتا پھٹ گیا تو واقع قصور وار مرد ہے اور عورت جو اپنی بےگناہی بیان کرتی ہے وہ سچی ہے فی الواقع اس صورت میں وہ سچی ہے۔ اور اگر اس کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا پاؤ تو عورت کے جھوٹ اور مرد کے سچ ہونے میں شبہ نہیں۔ ظاہر ہے کہ عورت اس پر مائل تھی یہ اس سے بھاگا وہ دوڑی، پکڑا، کرتا ہاتھ میں آگیا اس نے اپنی طرف گھسیٹا اس نے اپنی جانب کھینچا وہ پیچھے کی طرف سے پھٹ گیا۔ کہتے ہیں یہ گواہ بڑا آدمی تھا جس کے منہ پر داڑھی تھی یہ عزیز مصر کا خاص آدمی تھا اور پوری عمر کا مرد تھا۔ اور زلیخا کے چچا کا لڑکا تھا زلیخا بادشاہ وقت ریان بن ولید کی بھانجی تھی پس ایک قول تو اس گواہ کے متعلق یہ ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا دودھ پیتا گہوارے میں جھولتا بچہ تھا۔ ابن جریر میں ہے کہ چار چھوٹے بچوں چھٹپن میں ہی کلام کیا ہے اس پوری حدیث میں ہے اس بچے کا بھی ذکر ہے اس نے حضرت یوسف صدیق کی پاک دامنی کی شہادت دی تھی۔ ابن عباس فرماتے ہیں چار بچوں نے کلام کیا ہے۔ فرعون کی لڑکی کی مشاطہ کے لڑکے نے۔ حضرت یوسف کے گواہ نے۔ جریج کے صاحب نے اور حضرت عیسیٰ بن مریم ؑ نے۔ مجاہد نے تو ایک بالکل ہی غریب بات کہی ہے۔ وہ کہتے ہیں وہ صرف اللہ کا حکم تھا کوئی انسان تھا ہی نہیں۔ اسی تجویز کے مطابق جب زلیخا کے شوہر نے دیکھا تو حضرت یوسف کے پیراہن کو پیچھے کی جانب سے پھٹا ہوا دیکھا۔ اس کے نزدیک ثابت ہوگیا کہ یوسف سچا ہے اور اس کی بیوی جھوٹی ہے وہ یوسف صدیق پر تہمت لگا رہی ہے تو بےساختہ اس کے منہ سے نکل گیا کہ یہ تو تم عورتوں کا فریب ہے۔ اس نوجوان پر تم تہمت باندھ رہی ہو اور جھوٹا الزام رکھ رہی ہو۔ تمہارے چلتر تو ہیں ہی چکر میں ڈال دینے والے۔ پھر حضرت یوسف سے کہتا ہے کہ آپ اس واقعہ کو بھول جائیے، جانے دیجئے۔ اس نامراد واقعہ کا پھر سے ذکر ہی نہ کیجئے۔ پھر اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ تم اپنے گناہ سے استغفار کرو نرم آدمی تھا نرم اخلاق تھے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ وہ جان رہا تھا کہ عورت معذور سمجھے جانے کے لائق ہے اس نے وہ دیکھا جس پر صبر کرنا بہت مشکل ہے۔ اس لیے اسے ہدایت کردی کہ اپنے برے ارادے سے توبہ کر۔ سراسر تو ہی خطا وار ہے۔ کیا خود اور الزام دوسروں کے سر رکھا۔
So when he her husband saw that his shirt was torn from behind he said ‘Indeed this — that is your saying ‘What is to be the requital of him who intends …’ to the end of the verse Q. 1225 — is of the guile of you O women. Verily your guile is great.