He said, “Are you aware of what you did to Yusuf and his brother when you were unwise?” — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
فلما سمع مقالتهم رقَّ لهم، وعرَّفهم بنفسه وقال: هل تذكرون الذي فعلتموه بيوسف وأخيه من الأذى في حال جَهْلكم بعاقبة ما تفعلون؟
جب بھائی حضرت یوسف ؑ کے پاس اس عاجزی اور بےبسی کی حالت میں پہنچے اپنے تمام دکھ رونے لگے اپنے والد کی اور اپنے گھر والوں کی مصیبتیں بیان کیں تو حضرت یوسف ؑ کا دل بھر آیا نہ رہا گیا۔ اپنے سر سے تاج اتار دیا اور بھائیوں سے کہا کچھ اپنے کرتوت یاد بھی ہیں کہ تم نے یوسف کے ساتھ کیا کیا ؟ اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا ؟ وہ نری جہالت کا کرشمہ تھا اسی لئے بعض سلف فرماتے ہیں کہ اللہ کا ہر گنہگار جاہل ہے۔ قرآن فرماتا ہے آیت (ثم ان ربک للذین عملو السوء بجھالتہ) بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلی دو دفعہ کی ملاقات میں حضرت یوسف ؑ کو اپنے آپ کو ظاہر کرنے کا حکم اللہ نہ تھا۔ اب کی مرتبہ حکم ہوگیا۔ آپ نے معاملہ صاف کردیا۔ جب تکلیف بڑھ گئی سختی زیادہ ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے راحت دے دی اور کشادگی عطا فرما دی۔ جیسے ارشاد ہے کہ سختی کے ساتھ آسانی ہے یقینا سختی کے ساتھ آسانی ہے۔ اب بھائی چونک پڑے کچھ اس وجہ سے کہ تاج اتار نے کے بعد پیشانی کی نشانی دیکھ لی اور کچھ اس قسم کے سوالات کچھ حالات کچھ اگلے واقعات سب سامنے آگئے تاہم اپنا شک دور کرنے کے لئے پوچھا کہ کیا آپ ہی یوسف ہیں ؟ آپ نے اس سوال کے جواب میں صاف کہہ دیا کہ ہاں میں خود یوسف ہوں اور یہ میرا سگا بھائی ہے اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل و کرم کیا بچھڑنے کے بعد ملا دیا تفرقہ کے بعد اجتماع کردیا تقوی اور صبر رائگاں نہیں جاتے۔ نیک کاری بےپھل لائے نہیں رہتی۔ اب تو بھائیوں نے حضرت یوسف ؑ کی فضیلت اور بزرگی کا اقرار کرلیا کہ واقعی صورت سیرت دونوں اعتبار سے آپ ہم پر فوقیت رکھتے ہیں۔ ملک و مال کے اعتبار سے بھی اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت دے رکھی ہے۔ اسی طرح بعض کے نزدیک نبوت کے اعتبار سے بھی کیونکہ حضرت یوسف نبی تھے اور یہ بھائی نبی نہ تھے۔ اس اقرار کے بعد اپنی خطا کاری کا بھی اقرار کیا۔ اسی وقت حضرت یوسف ؑ نے فرمایا میں آج کے دن کے بعد سے تمہیں تمہاری یہ خطا یاد بھی نہ دلاؤں گا میں تمہیں کوئی ڈانٹ ڈپٹ کرنا نہیں چاہتا نہ تم پر الزام رکھتا ہوں نہ تم پر اظہار خفگی کرتا ہوں بلکہ میری دعا ہے کہ اللہ بھی تمہیں معاف فرمائے وہ ارحم الراحمین ہے۔ بھائیوں نے عذر پیش کیا اپنے قبول فرما لیا اللہ تمہاری پردہ پوشی کرے اور تم نے جو کیا ہے اسے بخش دے۔
Then he said to them in rebuke ‘Do you realise what you did to Joseph in the way of beating him and selling him and otherwise and his brother oppressing him after having separated him from his brother while you were ignorant?’ of where the affair of Joseph will lead?