You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ سَافَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ فَصَامَ حَتَّى بَلَغَ عُسْفَانَ ثُمَّ دَعَا بِإِنَاءٍ مِنْ مَاءٍ فَشَرِبَ نَهَارًا لِيُرِيَهُ النَّاسَ فَأَفْطَرَ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ قَالَ وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقُولُ صَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّفَرِ وَأَفْطَرَ فَمَنْ شَاءَ صَامَ وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ
Narrated Tawus: Ibn `Abbas said, Allah's Apostle travelled in the month of Ramadan and he fasted till he reached (a place called) 'Usfan, then he asked for a tumbler of water and drank it by the daytime so that the people might see him. He broke his fast till he reached Mecca. Ibn `Abbas used to say, Allah's Apostle fasted and sometimes did not fast while traveling, so one may fast or may not (on journeys)
ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ‘ ان سے منصور نے ‘ ان سے مجاہد نے ‘ ان سے طاؤس نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں ( فتح مکہ کا ) سفر شروع کیا ۔ آپ روزے سے تھے لیکن جب مقام عسفان پر پہنچے تو پانی طلب فرمایا ۔ دن کا وقت تھا اور آپ نے وہ پانی پیا تا کہ لوگوں کو دکھلا سکیں پھر آپ نے روزہ نہیں رکھا اور مکہ میں داخل ہوئے ۔ بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں ( بعض اوقات ) روزہ بھی رکھا تھا اور بعض اوقات روزہ نہیں بھی رکھا ۔ اس لیے ( سفر میں ) جس کا جی چاہے روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے ۔ مسافر کے لیے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے ۔ ( روایت میں فتح مکہ کے لیے سفر کرنے کا ذکر ہے ۔ یہی باب سے مطابقت ہے ۔ )
قریش کی بد عہدی پر مجبوراً مسلمانوں کو سنہ 8ھ میں بماہ رمضان مکہ شریف پر لشکر کشی کرنی پڑی ۔ قریش نے سنہ6ھ کے معاہدہ کو توڑ کر بنو خزاعہ پر حملہ کردیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیف تھے اور جن پر حملہ نہ کرنے کا عہد وپیمان تھا مگر قریش نے اس عہد کو اس بری طرح توڑا کہ سارے بنی خزاعہ کا صفایا کر دیا۔ ان بچاروں نے بھاگ کر کعبہ شریف میں پناہ مانگی اور الہک الہک کہہ کر پناہ مانگتے تھے کہ اپنے اللہ کے واسطے ہم کو قتل نہ کرو ۔ مشرکین ان کو جواب دیتے ” لا الہ الیوم “ آج اللہ کوئی چیز نہیں ۔ ان مظلو موں کے بچے ہوئے چالیس آدمیوں نے دربار رسالت میں جاکر اپنی بربادی کی ساری داستان سنائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معاہدے کی پابندی فریق مظلوم کی داد رسی دوستدار قبائل کی آئندہ حفاظت کی غرض سے دس ہزار کی جمعیت کے ساتھ بجانب مکہ عازم سفر ہوئے ۔ دو منزلہ سفر ہوا تھا کہ راستے میں ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب اور عبد اللہ بن امیہ سے ملاقات ہوئی اور اسلام قبول کیا ۔ اس موقع پر ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے عجب جوش ونشاط کے ساتھ مندرجہ ذیل اشعار پڑے۔ لعمرک انی حین احمل رایہ لتغلب خیل الات خیل محمد لکا المدلج ا لحیران اظلم لیلۃ فھذا اوانی حین ھدی فاھتدی ھدا نی ھاد غیر نفسی و دلنی الی اللہ من طرد تہ کل مطرد ترجمہ ” قسم ہے کہ میں جن دنوں لڑائی کا جھنڈا اس ناپاک خیال سے اٹھایا کرتا تھا کہ لات بت کے پوجنے والوں کی فوج حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی فوج پر غالب آجائے ۔ ان دنوں میں اس خار پشت جیسا تھا جو اندھیری رات میں ٹکریں کھاتا ہو۔ اب وقت آگیا ہے کہ میں ہدایت پاؤں اور سیدھے راستے ( اسلام پر ) گامزن ہو جاؤں ۔ مجھے سچے ہادی بر حق نے ہدا یت فرمادی ہے ( نہ کہ میرے نفس نے ) اور اللہ کا راستہ مجھے اس ہادی بر حق نے دکھلا دیا ہے جسے میں نے ( اپنی غلطی سے ) ہمیشہ دھتکار رکھا تھا ۔ آخر20 رمضان سنہ8ھ کو آپ مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے اور جملہ دشمنان اسلام کو عام معافی کا اعلان کرادیا گیا ۔ اس موقع پر آپ نے یہ خطبہ پیش فرمایا۔ یا معشر ! قریش ان اللہ قد اذھب منکم نخوۃ الجاھلیۃ وتعظمھا بالابائ۔ الناس من آدم وآدم خلق من تراب ثم تلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا ایھا الناس انا خلقنکم من ذکر وانثی وجعلکنا کم شعوبا وقبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند اللہ اتقا کم ۔ اذھبوا فانتم الطلقاءلا تثریب علیکم الیوم ( طبری ) اے خاندا ن قریش والو! خدا نے تمہاری جاہلانہ نخوت اور باپ دادوں پر اترانے کا غرور آج ختم کر دیا سن لو ! سب لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے پھر آپ نے اس آیت کو پڑھا اے لوگو! ہم نے تم کو ایک ہی مرد عورت سے پیدا کیا ہے اور گوت اور قبیلے سب تمہاری آپس کی پہچان کے لیے بنا دیئے ہیں اور خدا کے ہاں تو صرف تقوی والے کی عزت ہے ۔ پھر فرمایا ( اے قریشیو! ) جاؤ آج تم سب آزاد ہو تم پر آج کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ اس جنگ کے جستہ جستہ حالات حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مندرجہ ذیل ابواب میں بیان فرمائے ہیں۔