You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمَّا سَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ فَبَلَغَ ذَلِكَ قُرَيْشًا خَرَجَ أَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ وَحَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ وَبُدَيْلُ بْنُ وَرْقَاءَ يَلْتَمِسُونَ الْخَبَرَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلُوا يَسِيرُونَ حَتَّى أَتَوْا مَرَّ الظَّهْرَانِ فَإِذَا هُمْ بِنِيرَانٍ كَأَنَّهَا نِيرَانُ عَرَفَةَ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ مَا هَذِهِ لَكَأَنَّهَا نِيرَانُ عَرَفَةَ فَقَالَ بُدَيْلُ بْنُ وَرْقَاءَ نِيرَانُ بَنِي عَمْرٍو فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ عَمْرٌو أَقَلُّ مِنْ ذَلِكَ فَرَآهُمْ نَاسٌ مِنْ حَرَسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَدْرَكُوهُمْ فَأَخَذُوهُمْ فَأَتَوْا بِهِمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ أَبُو سُفْيَانَ فَلَمَّا سَارَ قَالَ لِلْعَبَّاسِ احْبِسْ أَبَا سُفْيَانَ عِنْدَ حَطْمِ الْخَيْلِ حَتَّى يَنْظُرَ إِلَى الْمُسْلِمِينَ فَحَبَسَهُ الْعَبَّاسُ فَجَعَلَتْ الْقَبَائِلُ تَمُرُّ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَمُرُّ كَتِيبَةً كَتِيبَةً عَلَى أَبِي سُفْيَانَ فَمَرَّتْ كَتِيبَةٌ قَالَ يَا عَبَّاسُ مَنْ هَذِهِ قَالَ هَذِهِ غِفَارُ قَالَ مَا لِي وَلِغِفَارَ ثُمَّ مَرَّتْ جُهَيْنَةُ قَالَ مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ مَرَّتْ سَعْدُ بْنُ هُذَيْمٍ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ وَمَرَّتْ سُلَيْمُ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى أَقْبَلَتْ كَتِيبَةٌ لَمْ يَرَ مِثْلَهَا قَالَ مَنْ هَذِهِ قَالَ هَؤُلَاءِ الْأَنْصَارُ عَلَيْهِمْ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ مَعَهُ الرَّايَةُ فَقَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ يَا أَبَا سُفْيَانَ الْيَوْمَ يَوْمُ الْمَلْحَمَةِ الْيَوْمَ تُسْتَحَلُّ الْكَعْبَةُ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ يَا عَبَّاسُ حَبَّذَا يَوْمُ الذِّمَارِ ثُمَّ جَاءَتْ كَتِيبَةٌ وَهِيَ أَقَلُّ الْكَتَائِبِ فِيهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ وَرَايَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ فَلَمَّا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَبِي سُفْيَانَ قَالَ أَلَمْ تَعْلَمْ مَا قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ قَالَ مَا قَالَ قَالَ كَذَا وَكَذَا فَقَالَ كَذَبَ سَعْدٌ وَلَكِنْ هَذَا يَوْمٌ يُعَظِّمُ اللَّهُ فِيهِ الْكَعْبَةَ وَيَوْمٌ تُكْسَى فِيهِ الْكَعْبَةُ قَالَ وَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُرْكَزَ رَايَتُهُ بِالْحَجُونِ قَالَ عُرْوَةُ وَأَخْبَرَنِي نَافِعُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ سَمِعْتُ الْعَبَّاسَ يَقُولُ لِلزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ هَا هُنَا أَمَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَرْكُزَ الرَّايَةَ قَالَ وَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ أَنْ يَدْخُلَ مِنْ أَعْلَى مَكَّةَ مِنْ كَدَاءٍ وَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كُدَا فَقُتِلَ مِنْ خَيْلِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَئِذٍ رَجُلَانِ حُبَيْشُ بْنُ الْأَشْعَرِ وَكُرْزُ بْنُ جابِرٍ الْفِهْرِيُّ
Narrated Hisham's father: When Allah's Apostle set out (towards Mecca) during the year of the Conquest (of Mecca) and this news reached (the infidels of Quraish), Abu Sufyan, Hakim bin Hizam and Budail bin Warqa came out to gather information about Allah's Apostle , They proceeded on their way till they reached a place called Marr-az-Zahran (which is near Mecca). Behold! There they saw many fires as if they were the fires of `Arafat. Abu Sufyan said, What is this? It looked like the fires of `Arafat. Budail bin Warqa' said, Banu `Amr are less in number than that. Some of the guards of Allah's Apostle saw them and took them over, caught them and brought them to Allah's Apostle. Abu Sufyan embraced Islam. When the Prophet proceeded, he said to Al-Abbas, Keep Abu Sufyan standing at the top of the mountain so that he would look at the Muslims. So Al-`Abbas kept him standing (at that place) and the tribes with the Prophet started passing in front of Abu Sufyan in military batches. A batch passed and Abu Sufyan said, O `Abbas Who are these? `Abbas said, They are (Banu) Ghifar. Abu Sufyan said, I have got nothing to do with Ghifar. Then (a batch of the tribe of) Juhaina passed by and he said similarly as above. Then (a batch of the tribe of) Sa`d bin Huzaim passed by and he said similarly as above. then (Banu) Sulaim passed by and he said similarly as above. Then came a batch, the like of which Abu Sufyan had not seen. He said, Who are these? `Abbas said, They are the Ansar headed by Sa`d bin Ubada, the one holding the flag. Sa`d bin Ubada said, O Abu Sufyan! Today is the day of a great battle and today (what is prohibited in) the Ka`ba will be permissible. Abu Sufyan said., O `Abbas! How excellent the day of destruction is! Then came another batch (of warriors) which was the smallest of all the batches, and in it there was Allah's Apostle and his companions and the flag of the Prophet was carried by Az-Zubair bin Al Awwam. When Allah's Apostle passed by Abu Sufyan, the latter said, (to the Prophet), Do you know what Sa`d bin 'Ubada said? The Prophet said, What did he say? Abu Sufyan said, He said so-and-so. The Prophet said, Sa`d told a lie, but today Allah will give superiority to the Ka`ba and today the Ka`ba will be covered with a (cloth) covering. Allah's Apostle ordered that his flag be fixed at Al-Hajun. Narrated `Urwa: Nafi` bin Jubair bin Mut`im said, I heard Al-Abbas saying to Az-Zubair bin Al- `Awwam, 'O Abu `Abdullah ! Did Allah's Apostle order you to fix the flag here?' Allah's Apostle ordered Khalid bin Al-Walid to enter Mecca from its upper part from Ka'da while the Prophet himself entered from Kuda. Two men from the cavalry of Khalid bin Al-Wahd named Hubaish bin Al-Ash'ar and Kurz bin Jabir Al-Fihri were martyred on that day.
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابو اسا مہ نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام بن عروہ نے ‘ ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے لیے روانہ ہوئے تو قریش کو اس کی خبر مل گئی تھی ۔ ، چنانچہ ابو سفیان بن حرب ‘ حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاءنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں معلومات کے لیے مکہ سے نکلے ۔ یہ لوگ چلتے چلتے مقام مر الظہران پر جب پہنچے تو انہیں جگہ جگہ آگ جلتی ہوئی دکھائی دی ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مقام عرفات کی آگ ہے ۔ ابو سفیان نے کہا یہ آگ کیسی ہے ؟ یہ عرفات کی آگ کی طرح دکھائی دیتی ہے ۔ اس پر بدیل بن ورقاءنے کہا کہ یہ بنی عمرو ( یعنی قباءکے قبیلے ) کی آگ ہے ۔ ابو سفیان نے کہا کہ بنی عمرو کی تعداد اس سے بہت کم ہے ۔ اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے محافظ دستے نے انہیں دیکھ لیا اور ان کو پکڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے ‘ پھر ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا ۔ اس کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آگے ( مکہ کی طرف ) بڑھے تو عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو ایسی جگہ پر روکے رکھو جہاں گھوڑوں کا جاتے وقت ہجوم ہو تاکہ وہ مسلمانوں کی فوجی قوت کو دیکھ لیں ۔ چنانچہ عباس رضی اللہ عنہ انہیں ایسے ہی مقام پر روک کر کھڑے ہو گئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قبائل کے دستے ایک ایک کر کے ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے سامنے سے گزر نے لگے ۔ ایک دستہ گزر اتو انہوں نے پوچھا ‘ عباس ! یہ کون ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ یہ قبیلہ غفار ہے ۔ ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے غفار سے کیا سروکار ‘ پھر قبیلہ جہینہ گزرا تو ان کے متعلق بھی انہوں نے یہی کہا ‘ قبیلہ سلیم گزرا تو ان کے متعلق بھی یہی کہا ۔ آخر ایک دستہ سامنے آیا ۔ اس جیسا فوجی دستہ نہیں دیکھا گیا ہو گا ۔ ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ انصار کا دستہ ہے ۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اس کے امیر ہیں اور انہیں کے ہاتھ میں ( انصار کا علم ہے ) سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا ابو سفیان ! آج کا دن قتل عام کادن ہے ۔ آج کعبہ میں بھی لڑنا درست کردیا گیا ہے ۔ ابو سفیان رضی اللہ عنہ اس پر بولے اے عباس ! ( قریش کی ہلاکت و بربادی کا دن اچھا آلگا ہے ۔ پھر ایک اور دستہ آیا یہ سب سے چھوٹا دستہ تھا ۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا علم زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ اٹھائے ہوئے تھے ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابو سفیان کے قریب سے گزرے تو انہوں نے کہا آپ کو معلوم نہیں ‘ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کیا کہہ گئے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ انہوں نے کیا کہا ہے ؟ تو ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ یہ یہ کہہ گئے ہیں کہ آپ قریش کا کام تمام کردیں گے ۔ ( سب کو قتل کر ڈالیں گے ۔ ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سعد رضی اللہ عنہ نے غلط کہا ہے بلکہ آج کا دن وہ ہے جس میں اللہ کعبہ کی عظمت اور زیادہ کر دے گا ۔ آج کعبہ کو غلاف پہنایا جائے گا ۔ عروہ نے بیان کیا پھرحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ آپ کا علم مقام جحون میں گاڑ دیا جائے ۔ عروہ نے بیان کیا اور مجھے نافع بن جبیر بن مطعم نے خبر دی ‘ کہا کہ میں نے عباس رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے کہا ( فتح مکہ کے بعد ) کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہیں جھنڈا گاڑ نے کے لیے حکم فرمایا تھا ۔ راوی نے بیان کیا کہ اس دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ مکہ کے بالائی علاقہ کداءکی طرف سے داخل ہوں اور خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کدا ( نشیبی علاقہ ) کی طرف سے داخل ہوئے ۔ اس دن خالد رضی اللہ عنہ کے دستہ کے دو صحابی ‘حبیش بن اشعر اور کرز بن جابر فہری شہید ہوئے تھے ۔
روایت میں مر الظہران ایک مقام کا نام ہے مکہ سے ایک منزل کی دوری پرواقع ہے۔ اب اس کو وادی فاطمہ کہتے ہیں۔ عرفات میں حاجیوں کی عادت تھی کہ ہر ایک آگ سلگا تا ۔ کہتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو الگ الگ جلانے کا حکم فرما یا ۔ چنانچہ ہزاروں جگہ آ گ روشن کی گئی ۔ روایت کے آ خر میں لفظ حبذا یوم الذمار کا ترجمہ بعضوں نے یوں کیا ہے ۔ ” وہ دن اچھا ہے جب تم کو مجھے بچانا چاہیے ۔ “ کہتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سامنے سے گزرے تو ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے آپ کو قسم دے کر پوچھا کیا آپ نے اپنی قوم کے قتل کرنے کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں ۔ ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کا کہنا بیان کیا ۔ آپ نے فرمایا نہیں آج تو رحمت اور کرم کا دن ہے ۔ آج اللہ قریش کو عزت دے گا اور سعد رضی اللہ عنہ سے جھنڈا لے کر ان کی بجائے قیس کو دیا ۔ فتح مکہ کے دن علم نبوی مقام جحون میں گاڑا گیا تھا ۔ کدآ بالمد اور کدا بالقصر دونوں مقاموں کے نام ہیں ۔ پہلا مقام مکہ کے بالائی جانب میں ہے اور دوسرا نشیبی جانب میں۔ جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فوج کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے تو صفوان بن امیہ اور سہیل بن عمرو نے کچھ آدمیوں کے ساتھ مسلمانوں کا مقابلہ کیا ۔ کافر12-13 مارے گئے اور مسلمان دو شہید ہوئے۔ روایت میں مذکور شدہ حضرت ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچیرے بھائی ہوتے ہیں۔ یہ شاعر بھی تھے اور ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں انہوں نے ایک قصیدہ کہا تھا ، جس کا جواب حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بڑے شاندار شعروں میں دیا تھا۔ فتح کے دن اسلام لانے کا ارادہ کر رہے تھے مگر پچھلے حالات یاد کر کے شرم کے مارے سر نہیں اٹھارہے تھے آخر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک کی طرف منہ کرکے وہ الفاظ کہہ دیجئے جو حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے ان کے خطا کار بھائیوں نے کہے تھے۔ تاللہ لقد ا ثر ک اللہ علینا وان کنا لخا طئین ( یوسف:91 ) یعنی اللہ کی قسم ! آپ کو اللہ نے ہمارے اوپر بڑی فضیلت بخشی اور ہم بلا شک خطا کار ہیں۔ آپ یہ الفاظ کہیں گے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ بھی جواب میںوہی ہوں گے جو حضرت یوسف علیہ السلام کے تھے۔ لا تثریب علیکم الیوم یغفراللہ لکم وھو ارحم الر حمین ( یوسف : 92 ) اے بھائیو! آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں ہے ۔ اللہ تم کو بخشے وہ بہت بڑا رحم کرنے والا ہے ۔ آخر مسلمان ہوئے اور اچھا پر خلوص اسلام لائے ۔ آخر عمر میں حج کر رہے تھے جب حجام نے سر مونڈا تو سر میں ایک رسولی تھی اسے بھی کاٹ دیا یہی ان کی موت کا سبب ہوا ۔ سنہ20 ھ میں وفات پائی۔ حضرت فاروق رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔