You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، ح وَحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْتَرِئْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ
Ubada b. as-Samit reported: The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: He who does not recite Umm al-Qur'an is not credited with having observed the prayer.
یونس نے ابن شہاب سے روایت کی، کہا: مجھے محمود بن ربیع نے حضرت عبادہ بن صامترضی اللہ عنہ سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے ام القریٰ (فاتحہ) نہیں پڑھی۔‘‘
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 218 ´سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں` «. . . لا صلاة لمن لم يقرا بفاتحة الكتاب .» ”۔۔۔جس شخص نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی۔“ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 756] لغوی تشریح: «بِأُمِّ الْقُرْآنِ» ام القرآن سے مراد سورہ فاتحہ ہے۔ یہ حدیث سورہ فاتحہ کے (نماز میں) پڑھنے کی فرضیت پر دلالت کرتی ہے، اس لیے کہ ”لا“ نافیہ جس پر آتا ہے اس سے ذات کی نفی مراد ہوتی ہے اور یہ اس کے حقیقی معنی ہیں۔ یہ صفات کی نفی کے لئے اس وقت آتا ہے جب ذات کی نفی مشکل اور دشوار ہو۔ اور اس حدیث میں ذات کی نفی کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ نماز کے شرعا معنی تو یہ ہیں کہ وہ اقوال اور افعال کا مجموعہ ہے، لہٰذا بعض ی کل کی نف سے اس کی نفی ہو گی۔ اگر بالفرض ذات کی نفی میں دشواری پیش آئے تو پھر حقیقت کے قریب والی صفت پر محمول کیا جائے گا، مثلاً: اس کی صحت کی نفی اور اس کے کافی ہونے کی نفی۔ اس معنی کی تائید ابن حبان اور دارقطنی کی حدیث میں وارد الفاظ «لَا تُجْزِيءُ صَلَاةٌ» سے ہوتی ہے۔ اس کے معنی ہوئے کہ نماز کافی ہو گی نہ صحیح، چنانچہ جب اس حدیث سے بغیر فاتحہ کے نماز کی نفی اور اس کا صحیح نہ ہونا معلوم ہو گیا تو پھر ثابت ہوا کہ سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے اور اس میں سب شامل ہیں، خواہ امام ہو یا مقتدی یا اکیلا نماز پڑھنے والا۔ سورہ فاتحہ کا امام کے پیچھے پڑھنا واجب ہے، اس پر امام احمد اور ابوداود رحمہما اللہ کی روایت جسے مصنف نے بیان کیا ہے نہایت صریح اور واضح دلیل ہے۔ فوائد و مسائل: ➊ یہ حدیث کھلا اور واضح ثبوت ہے کہ سورہ فاتحہ پڑھے بغیر کسی کی بھی نماز نہیں ہوتی، خواہ امام ہو یا مقتدی یا کوئی اکیلا شخص۔ صحیح ترین مرفوع احادیث کی روشنی میں یہی مذہب حق اور مبنی بر صداقت ہے۔ شوافع اہل حدیث اور ایل ظاہر اسی طرف گئے ہیں کہ ہر نمازی کے لئے ہر نماز کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین میں سے جمہور علماء کا یہی مسلک ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں ہر ایک کے لیے اس کا پڑھنا واجب ہے۔ اس میں امام اور مقتدی کا کوئی فرق نہیں اور نہ جہری اور سری نماز ہی کا۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ امام کے پیچھے بھی سورۂ فاتحہ کا پڑھنا لازمی اور لابدی امر ہے۔ [صحيح مسلم، الصلاة، باب وجوب قراءة الفاتحة۔۔۔، حديث: 395، 396] ابوداود، ترمذی اور نسائی وغیرہ میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا: ”کیا تم امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟“ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورہ فاتحہ کے سوا اور کچھ نہ پڑھا کرو کیونکہ اس کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی۔“ اور دوسری احادیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز قطعاً نہیں ہوتی۔ ➋ مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی نے ”امام الکلام“ اور ”التعلیق الممجد“ میں لکھا ہے: ”کسی بھی صحیح حدیث سے فاتحہ خلف الامام کی ممانعت ثابت نہیں اور اس سلسلے میں جو نقل کیا جاتا ہے وہ صحیح نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ سری نمازوں میں اور جہری کے سکتات میں مقتدی کو امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنی چاہئیے۔ محدثین کی ایک جماعت کا یہی مذہب ہے۔“ ان کے علاوہ متقدمین ومتاخرین علمائے احناف کی ایک جماعت دلائل کی بنا پر فاتحہ خلف الامام کی قائل رہی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شاہ عبدالعزیز رحمہما اللہ اسی کے قائل تھے حتی کہ مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی سری نمازوں کے علاوہ جہری کے سکتات میں فاتحہ خلف الامام کو جائز قرار دیا ہے جس کی با حوالہ تفصیل مولانا ارشاد الحق اثری رحمہ اللہ کی کتاب ”توضیح الکلام“ کی جلد اول میں دیکھی جاسکتی ہے۔ راویٔ حدیث: (حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ) عبادہ کی ”عین“ پر ضمہ اور ”با“ مخفف ہے۔ انصار کے قبیلہ خزرج کے فرد تھے۔ سرداران انصار میں نمایاں شخصیت کے حامل تھے۔ بیعت عقبہ اولیٰ اور ثانیہ دونوں میں شریک تھے۔ غزوہ بدر کے ساتھ دوسرے معرکوں میں بھی شریک ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو شام کی طرف قاضی اور معلم بنا کر بھیجا۔ پہلے حمص میں قیام پذیر ہوئے بعد ازاں فلسطین کی طرف منتقل ہو گئے اور وہیں ”رملہ“ کے مقام پر وفات پائی اور بقول بعض 34 ہجری میں 72 برس کی عمر پاکر بیت المقدس میں فوت ہوئے۔ بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 218