You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن يزيد ابن ماجة القزويني
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
َحدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سِنَانٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ خَالِدٍ الْحِمْصِيِّ، عَنِ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ، قَالَ: وَقَعَ فِي نَفْسِي شَيْءٌ مِنْ هَذَا الْقَدَرِ، خَشِيتُ أَنْ يُفْسِدَ عَلَيَّ دِينِي وَأَمْرِي، فَأَتَيْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، فَقُلْتُ: أَبَا الْمُنْذِرِ، إِنَّهُ قَدْ وَقَعَ فِي نَفْسِي شَيْءٌ مِنْ هَذَا الْقَدَرِ، فَخَشِيتُ عَلَى دِينِي وَأَمْرِي، فَحَدِّثْنِي مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ، لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَنْفَعَنِي بِهِ، فَقَالَ: «لَوْ أَنَّ اللَّهَ عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ وَأَهْلَ أَرْضِهِ، لَعَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ، وَلَوْ رَحِمَهُمْ لَكَانَتْ رَحْمَتُهُ خَيْرًا لَهُمْ مِنْ أَعْمَالِهِمْ، وَلَوْ كَانَ لَكَ مِثْلُ جَبَلِ أُحُدٍ ذَهَبًا، أَوْ مِثْلُ جَبَلِ أُحُدٍ تُنْفِقُهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، مَا قُبِلَ مِنْكَ حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، فَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَأَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، وَأَنَّكَ إِنْ مُتَّ عَلَى غَيْرِ هَذَا دَخَلْتَ النَّارَ» وَلَا عَلَيْكَ أَنْ تَأْتِيَ أَخِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، فَتَسْأَلَهُ، فَأَتَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ، فَسَأَلْتُهُ، فَذَكَرَ مِثْلَ مَا قَالَ أُبَيٌّ وَقَالَ لِي: وَلَا عَلَيْكَ أَنْ تَأْتِيَ حُذَيْفَةَ، فَأَتَيْتُ حُذَيْفَةَ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ مِثْلَ مَا قَالَا، وَقَالَ: ائْتِ زيْدَ بْنَ ثابتٍ، فَاسْأَلْهُ، فَأَتَيْتُ زيْدَ بْنَ ثابتٍ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ يَقُولُ: «لوْ أَنَّ اللَّهَ عذَّبَ أهْلَ سَمَاوَاتِهِ وأهْلَ أرْضِهِ، لَعَذَّبَهُمْ وَهُوَ غيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ، وَلَوْ رَحِمَهُمْ لَكَانَتْ رَحْمَتُهُ خيْرًا لَهُمْ مِنْ أَعْمَالِهِمْ، وَلَوْ كَانَ لَكَ مِثْلُ أُحُدٍ ذَهَبًا، أوْ مِثْلُ جَبَلِ أُحُدٍ ذَهَبًا تُنْفِقُهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، مَا قَبِلَهُ مِنْكَ حتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ كُلِّهِ، فَتَعْلَمَ أنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَمَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، وَأَنَّكَ إِنْ مُتَّ عَلَى غيْرِ هَذَا دَخَلْتَ النَّارَ»
It was narrated that Ibn Dailami said: I was confused about this Divine Decree (Qadar), and I was afraid lest that adversely affect my religion and my affairs. So I went to Ubayy bin Ka'b and said: 'O Abu Mundhir! I am confused about the Divine Decree, and I fear for my religion and my affairs, so tell me something about that through which Allah may benefit me.' He said: 'If Allah were to punish the inhabitants of His heavens and of his earth, He would do so and He would not be unjust towards them. And if He were to have mercy on them, His mercy would be better for them than their own deeds. If you had the equivalent of Mount Uhud which you spent in the cause of Allah, that would not be accepted from you until you believed in the Divine Decree and you know that whatever has befallen you, could not have passed you by; and whatever has passed you by, could not have befallen you; and that if you were to die believing anything other than this, you would enter Hell. And it will not harm you to go to my brother, 'Abdullah bin Mas'ud, and ask him (about this).' So I went to 'Abdullah and asked him , and he said something similar to what Ubayy had said, and he told me: 'It will not harm you to go to Hudhaifah.' So I went to Hudhaifah and asked him, and he said something similar to what they had said. And he told me: 'Go to Zaid bin Thabit and ask him.' So I went to Zaid bun Thabit and asked him, and he said: 'I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: If Allah were to punish the inhabitants of His heavens and of His earth, he would do so and He would not be unjust towards them. And if He were to have mercy on them, His mercy would be better for them than their own deeds. If you had the equivalent of Mount Uhud which you spent in the cause of Allah, that would not be accepted from you until you believed in the Divine Decree and you know that whatever has befallen you, could not have passed you by; and whatever has passed you by, could not have befallen you; and that if you were to die believing anything other than this, you would enter Hell
ابن دیلمی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میرے دل میں تقدیر کے مسئلہ میں شبہ پیدا ہوا، جس سے مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں وہ میرا دین اور کام( معاملات) تباہ نہ کردے، چنانچہ میں حضرت ابی بن کعب ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے کہا: ابو منذر!میرے دل میں تقدیر کے بارے میں شبہ پیدا ہوگیا ہے ، جس سے مجھے اپنے اور معاملات کے بارے میں(خرابی کا) خوف ہے۔ مجھے اس کے متعلق کچھ فرمایئے، شاید اس سے اللہ تعالیٰ مجھے فائدہ بخش دے۔ حضرت ابی ؓ نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ ( تمام) آسمانوں والوں اور (تمام) زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ یہ اس کا ان پر ظلم نہیں ہوگا۔ اور اگر ان پر رحمت کرے تو اس کی رحمت ان کے اعمال سے بہتر ہوگی۔ اور اگر تیرے پاس احد پہاڑ جتنا سونا ہو یا احد پہاڑ جتنا مال ہو اور تو اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دے، تو تیرا یہ عمل قبول نہیں ہوگا جب تک کہ تو تقدیر پر ایمان نہ لائے۔ تجھے معلوم ہونا چاہیئے جو مصیبت تجھے پہنچی ہے وہ تجھ سے ٹلنے والی نہ تھی( اسے بہر حال آنا ہی تھا) اور جو مصیبت تجھے نہیں پہنچی وہ تجھے پہنچنے والی نہ تھی اور( یہ جان لے کہ) اگر تیری موت اس عقیدے کے سوا کسی اور عقیدے پر ہوئی تو تُو جہنم میں داخل ہوگا۔ اور اگر تو میرے بھائی عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس جا کر یہ مسئلہ پوچھ لے تو کوئی حرج نہیں۔ چنانچہ ابن دیلمی ؓ فرماتے ہیںِ میں سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے یہ مسئلہ پوچھا ، انہوں نے بھی وہی بات فرمائی جو ابی ؓ نے فرمائی تھی۔ اور فرمایا: اگر تو حذیفہ ؓ کے پاس جائے ( اور مسئلہ دریافت کرے) تو کوئی حرج نہیں۔ چنانچہ میں سیدنا حذیفہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے پوچھا، انہوں نے وہی بات فرمائی جو دوسرے دونوں حضرات نے فرمائی تھی۔ اور فرمایا: حضرت زید بن ثابت ؓ کے پاس جا کر ان سے پوچھ لو۔ پھر میں سیدنا زید بن ثابت ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے مسئلہ پوچھا۔ انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ ارشاد سنا ہے ، آپ نے فرمایا:‘‘ اگر اللہ تعالیٰ ( تمام) آسمانوں والوں اور (تمام) زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ یہ اس کا ان پر ظلم نہیں ہوگا۔ اور اگر ان پر رحمت کرے تو اس کی رحمت ان کے اعمال سے بہتر ہوگی۔ اور اگر تیرے پاس احد پہاڑ جتنا سونا ہو یا احد پہاڑ جتنا مال ہو اور تو اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دے، تو تیرا یہ عمل قبول نہیں کرے گا حتٰی کہ تو ساری تقدیر پر ایمان لائے، اور( یقین کے ساتھ) جان لے کہ جو مصیبت تجھے پہنچی ہے وہ تجھ سے ٹلنے والی نہ تھی اور جو مصیبت تجھے نہیں پہنچی ، وہ تجھے پہنچنے والی نہ تھی۔ اور( جان لے کہ) اگر تیری موت اس عقیدے کے سوا کسی اور عقیدے پر ہوئی تو تو جہنم میں داخل ہوگا۔’’
اس حدیث میں ایمان کے مزہ اور اس کی حلاوت و شیرینی کا ذکر ہے جو محسوس اشیاء کے مزہ کی طرح نہیں ہے، دنیاوی کھانے پینے کا ایک مزہ ہوتا ہے، دوسری چیز کھانے کے بعد پہلی چیز کا مزہ جاتا رہتا ہے، لیکن ایمان کی حلاوت تا دیر باقی رہتی ہے، حتی کہ آدمی کبھی خلوص دل، حضور قلب اور خشوع و خضوع کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے تو اس کی حلاوت اسے مدتوں محسوس ہوتی ہے، لیکن اس ایمانی حلاوت اور مزہ کا ادراک صرف اسی کو ہو گا جس کو اللہ تعالیٰ نے اس نعمت سے بہرہ ور کیا ہو۔ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مقدر کر رکھا ہے، تقدیر کو اصابت سے تعبیر کیا، اس لئے کہ تقدیر کا لکھا ہو کر رہے گا، تو جو کچھ تقدیر تھی اللہ تعالیٰ نے اسے بندہ کے حق میں لکھ دی ہے وہ اس کو مل کر رہے گی، مقدر کو ٹالنے کے اسباب اختیار کرنے کے بعد بھی وہ مل کر رہے گا، انسان سے وہ خطا نہیں کرے گا۔ ایک معنی یہ بھی ہے کہ تم کو جو کچھ بھی پہنچ گیا ہے اس کے بارے میں یہ نہ سوچو کہ وہ تم سے خطا کرنے والی چیز ہے، تو یہ نہ کہو کہ اگر میں نے ایسے ایسے کیا ہوتا تو ایسا نہ ہوتا، اس لئے کہ اس وقت تم جس حالت سے دور چار ہوئے اس کا ٹلنا ناممکن ہے، تو تمہارا ہر اندازہ اور ہر تدبیر اس تقدیر کے وقوع پذیر ہونے میں غیر موثر ہے، حدیث کی شرح دونوں معنوں میں صحیح ہے، پس اللہ تعالیٰ نے بندہ کے حق میں جو کچھ مقدر کر رکھا ہے وہ اس کو مل کر رہے گا، اس کا خطا کرجانا ناممکن ہے، اس بات پر ایمان کے نتیجہ میں مومن ایمان کا مزہ چکھے گا، اس لئے کہ اس ایمان کی موجودگی میں آدمی کو اس بات کا علم اور اس پر اطمینان ہو گا کہ مقدر کی بات لابدی اور ضروری طور پر واقع ہو گی، اس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک آدمی اپنے بچوں کو لے کر کسی تفریح گاہ میں سیر و تفریح کے لئے جاتا ہے، اور اس کا بچہ وہاں گہرے پانی میں ڈوب کر مر جاتا ہے، تو یہ کہنا صحیح نہیں کہ اگر وہ سیر کے لئے نہ نکلا ہوتا تو وہ بچہ نہ مرتا، اس لئے کہ جو کچھ ہوا یہ اللہ کی طرف سے مقدر تھا، اور تقدیر کے مطابق لازمی طور پر ہوا جس کو روکا نہیں جا سکتا تھا، تو جو کچھ ہونے والی چیز تھی اس نے خطا نہیں کی، ایسی صورت میں انسان کو اطمینان قلب حاصل ہو جاتا ہے اور وہ اس صورت حال پر اللہ کے فیصلہ پر صبر کرتا ہے بلکہ اس پر راضی ہوتا ہے، اور اس کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ جو کچھ ہوا اس سے فرار کی کوئی صورت نہیں تھی، اور دل میں ہر طرح کے اٹھتے خیالات اور اندازے سب شیطانی وساوس کے قبیل سے ہیں، پس آدمی کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو ایسا اور ایسا ہوتا، کیونکہ «لو» شیطان کی دخل اندازی کا راستہ کھول دیتا ہے، اس معنی کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا ہے: «ما أصاب من مصيبة في الأرض ولا في أنفسكم إلا في كتاب من قبل أن نبرأها إن ذلك على الله يسير (۲۲) لكيلا تأسوا على ما فاتكم ولا تفرحوا بما آتاكم والله لا يحب كل مختال فخور» یعنی: نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے، نہ (خاص) تمہاری جانوں میں، مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے، یہ (کام) اللہ تعالیٰ پر (بالکل) آسان ہے، تاکہ تم اپنے سے فوت شدہ کسی چیز پر رنجیدہ نہ ہو جایا کرو، اور نہ عطا کردہ چیز پر اترا جاؤ، اور اترانے والے شیخی خوروں کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔ (سورۃ الحدید: ۲۲-۲۳) آدمی اگر تقدیر پر یقین کرے تو مصائب و حوادث پر اس کو اطمینان قلب ہو گا، اور وہ اس پر صبر کرے گا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر راضی ہو گا، اور اسے ایمان کی حلاوت کا احساس ہو گا۔ حدیث کا دوسرا ٹکڑا: «وما أخطأك لم يكن يصيبك» پہلے فقرے ہی کے معنی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو تقدیر میں نہ ہونا لکھ دیا ہے، وہ کبھی واقع نہیں ہو سکتی، مثلاً اگر ایک آدمی نے کسی تجارت گاہ کا رخ کیا، لیکن وہاں پہنچنے پر پتہ چلا کہ بازار بند ہو گیا، تو اس کو کہا جائے گا کہ یہ تجارتی فائدہ جو تم کو نہ ملا، اسے تم کو ہرگز ہرگز نہ ملنا تھا چاہے تم اس کے لئے جتنا بھی جتن اور کوشش کرتے، یا ہم یہ کہیں کہ یہ تم کو حاصل ہونے والا نہ تھا اس لئے کہ معاملہ اللہ کے قضا و قدر کے مطابق طے ہونا تھا، آدمی کو اس عقیدہ کا تجربہ کرکے یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا اس کے بعد اس کو ایمان کی حلاوت کا احساس ہوا یا نہیں۔ ۲؎: سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ انسان تقدیر پر ایمان رکھے، اور شیطانی وسوسوں سے بچے، اور تقدیر کے منکروں سے میل جول نہ رکھے بلکہ ان سے دور رہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان کے اچھے اعمال بغیر ایمان کے ہرگز قبول نہیں ہوتے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر انسان اس قضا و قدر کے اسلامی عقیدہ کے سوا کسی اور عقیدہ پر مرا تو وہ جہنم میں جائے گا، مراد اس سے جہنم میں ہمیشہ رہنے کا نہیں ہے، جیسے کافروں کے لئے جہنم میں ہمیشہ رہنا ہے، اس لئے کہ اہل قبلہ اپنے گناہوں کی سزا میں عذاب پانے کے بعد اگر وہ موحد ہیں تو جہنم سے نکالے جائیں گے