You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن يزيد ابن ماجة القزويني
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَصْحَابِهِ، وَهُمْ يَخْتَصِمُونَ فِي الْقَدَرِ، فَكَأَنَّمَا يُفْقَأُ فِي وَجْهِهِ، حَبُّ الرُّمَّانِ مِنَ الْغَضَبِ، فَقَالَ: «بِهَذَا أُمِرْتُمْ، أَوْ لِهَذَا خُلِقْتُمْ، تَضْرِبُونَ الْقُرْآنَ بَعْضَهُ بِبَعْضٍ، بِهَذَا هَلَكَتِ الْأُمَمُ قَبْلَكُمْ» قَالَ: فَقَالَ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، مَا غَبَطْتُ نَفْسِي بِمَجْلِسٍ تَخَلَّفْتُ فِيهِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا غَبَطْتُ نَفْسِي بِذَلِكَ الْمَجْلِسِ وَتَخَلُّفِي عَنْهُ
Amr in Shu'aib narrated from his father that his grandfather said: The Messenger of Allah (ﷺ) came out to his Companions when they were disputing about the Divine Decree, and it was as if pomegranate seeds had burst on his face (i.e. turned red) because of anger. He said: 'Have you been commanded to do this, or were you created for this purpose? You are using one part of the Qur'an against another part, and this is what led to the doom of the nations who came before you.' 'Abdullah bin 'Amr said: I was never happy to have missed a gathering with the Messenger of Allah (ﷺ) as I was to have missed that gathering.'
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک روز رسول اللہ ﷺ باہر صحابہ کے پاس تشریف لائے تو وہ تقدیر کے بارے میں بحث کر رہے تھے۔ آپ کا چہرہٴ مبارک غصے سے اس قدر سرخ ہوگیا، گویا اس پر انار کے دانے نچوڑ دیے گئے ہیں۔( تب) نبی ﷺ نے فرمایا: ‘‘کیا تمہیں اس بات کا حکم دیا گیا ہے؟ یا کیا تمہیں اس کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے؟ تم قرآن کی آیات کو ایک دوسری سے ٹکرا رہے ہو۔ تم سے پہلی امتیں اسی وجہ سے تباہ ہوئیں تھیں۔’’ سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ نے فرمایا: مجھے رسول اللہ ﷺ کی کسی مجلس سے غیر حاضر رہنے پر خوشی نہیں ہوئی جس طرح اس مجلس میں موجود نہ ہونے پر خوشی ہوئی۔
اس سے معلوم ہوا کہ تقدیر کے بارے میں زیادہ گفتگو نہیں کرنی چاہئے، جتنی اللہ اور اس کے رسول نے خبر دی ہے اسی پر ایمان کافی ہے، اور اس کے بارے میں زیادہ غور و خوض اور قیل و قال، باطل میں قیل و قال کرنا ہے، اور اس طرح باقی امور جس میں شارع نے اجمال و اختصار سے کام لیا ہے اس کی شرح و تفصیل کی بھی ہمیں ضرورت نہیں۔