Had Allah not pre-destined a matter then, O Muslims, a terrible punishment would have come upon you due to the ransom you took from the disbelievers. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
لولا كتاب من الله سبق به القضاء والقدر بإباحة الغنيمة وفداء الأسرى لهذه الأمة، لنالكم عذاب عظيم بسبب أخْذكم الغنيمة والفداء قبل أن ينزل بشأنهما تشريع.
اسیران بدر اور مشورہ مسند امام احمد میں ہے کہ بدر کے قیدیوں کے بارے میں رسول مقبول ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ لیا کہ اللہ نے انہیں تمہارے قبضے میں دے دیا ہے بتاؤ کیا ارادہ ہے ؟ حضرت عمر بن خطاب نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ ان کی گردنیں اڑا دی جائیں آپ نے ان سے منہ پھیرلیا پھر فرمایا اللہ نے تمہارے بس میں کردیا ہے یہ کل تک تمہارے بھائی بند ہی تھے۔ پھر حضرت عمر نے کھڑے ہو کر اپنا جواب دوہرایا آپ نے پھر منہ پھیرلیا اور پھر وہی فرمایا اب کی دفعہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ ہماری رائے میں تو آپ ان کی خطا سے درگزر فرما لیجئے اور انہیں فدیہ لے کر آزاد کیجئے اب آپ کے چہرے سے غم کے آثار جاتے رہے عفو عام کردیا اور فدیہ لے کر سب کو آزاد کردیا اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت اتاری۔ اسی صورت کے شروع میں ابن عباس کی روایت گذر چکی ہے صحیح مسلم میں بھی اسی جیسی حدیث ہے کہ بدر کے دن آپ نے دریافت فرمایا کہ ان قیدیوں کے بارے میں تم کیا کہتے ہو ؟ حضرت ابوبکر نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ آپ ﷺ کی قوم کے ہیں، آپ والے ہیں انہیں زندہ چھوڑا جائے ان سے توبہ کرالی جائے گی عجب کہ کل اللہ کی ان پر مہربانی ہوجائے لیکن حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ ﷺ یہ آپ ﷺ کو جھٹلانے والے آپ ﷺ کو نکال دینے والے ہیں حکم دیجئے کہ ان کی گردنیں ماری جائیں۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نے کہا یارسول اللہ ﷺ اسی میدان میں درخت بکثرت ہیں آگ لگوا دیجئے اور انہیں جلا دیجئے آپ خاموش ہو رہے کسی کو کوئی جواب نہیں دیا اور اٹھ کر تشریف لے گئے لوگوں میں بھی ان تینوں بزرگوں کی رائے کا ساتھ دینے والے ہوگئے اتنے میں آپ ﷺ پھر تشریف لائے اور فرمانے لگے بعض دل نرم ہوتے ہوتے دودھ سے بھی زیادہ نرم ہوجاتے ہیں اور بعض دل سخت ہوتے ہوتے پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوجاتے ہیں۔ اے ابوبکر تمہاری مثال آنحضرت ابراہیم ؑ جیسی ہے کہ اللہ سے عرض کرتے ہیں کہ میرے تابعدار تو میرے ہیں ہی لیکن مخالف بھی تیری معافی اور بخشش کے ماتحت ہیں اور تمہاری مثال حضرت عیسیٰ ؑ جیسی ہے جو کہیں گے یا اللہ اگر تو انہیں عذاب کرے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں بخش دے تو تو عزیز و حکیم ہے اور اے عمر تمہاری مثال حضرت نوح ؑ جیسی ہے جنہوں نے اپنی قوم پر بددعا کی کہ یا اللہ زمین پر کسی کافر کو بستا ہوا باقی نہ رکھ۔ سنو تمہیں اس وقت احتیاج ہے ان قیدیوں میں سے کوئی بھی بغیر فدیئے کے رہا نہ ہو ورنہ ان کی گردنیں ماری جائیں۔ اس پر ابن مسعود ؓ نے درخواست کی کہ یا رسول اللہ ﷺ سہیل بن بیضا کو اس سے مخصوص کرلیا جائے اس لیے وہ اسلام کا ذکر کیا کرتا تھا اس پر حضور ﷺ خاموش ہوگئے واللہ میں سارا دن خوف زدہ رہا کہ کہیں مجھ پر آسمان سے پتھر نہ برسائے جائیں یہاں تک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مگر سہیل بن بیضا اسی کا ذکر اس آیت میں ہے یہ حدیث ترمذی مسند احمد وغیرہ میں ہے۔ ان قیدیوں میں عباس بھی تھے انہیں ایک انصاری نے گرفتار کیا تھا انصار کا خیال تھا کہ اسے قتل کردیں آپ کو بھی یہ حال معلوم تھا آپ ﷺ نے فرمایا رات کو مجھے اس خیال سے نیند نہیں آئی۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا اگر آپ ﷺ اجازت دیں تو میں انصار کے پاس جاؤں آپ ﷺ نے اجازت دی حضرت عمر انصار کے پاس آئے اور کہا عباس کو چھوڑ دو انہوں نے جواب دیا واللہ ہم اسے نہ چھوریں آپ نے فرمایا گو رسول اللہ ﷺ کی رضامندی اسی میں ہو ؟ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو آپ اب انہیں لے جائیں ہم نے بخوشی چھوڑا۔ اب حضرت عمر نے ان سے کہا کہ عباس اب ملسمان ہوجاؤ واللہ تمہارے اسلام لانے سے مجھے اپنے باپ کے اسلام لانے سے بھی زیادہ خوشی ہوگی اس لیے کہ رسول للہ ﷺ تمہارے اسلام لانے سے خوش ہوجائیں گے ان قیدیوں کے بارے میں حضور ﷺ نے ابوبکر سے مشورہ لیا تو آپ نے تو فرمایا یہ سب ہمارے ہی کنبے قبیلے کے لوگ ہیں انہیں چھوڑ دیجئے حضرت عمر سے جب مشورہ لیا تو آپ نے جواب دیا کہ ان سب کو قتل کردیا جائے۔ آخر آپ نے فدیہ لے کر انہیں آزاد کیا۔ حضرت علی فرماتے ہیں حضرت جبرائیل ؑ آئے اور فرمایا کہ اپنے صحابہ کو اختیار دیجئے کہ وہ ان دو باتوں میں سے ایک کو پسند کرلیں اگر چاہیں تو فدیہ لے لیں اور اگر چاہیں تو ان قیدیوں کو قتل کردیں لیکن یہ یاد رہے کہ فدیہ لینے کی صورت میں اگلے سال ان میں اتنے ہی شہید ہوں گے۔ صحابہ نے کہا ہمیں یہ منطور ہے اور ہم فدیہ لے کر چھوڑیں گے (ترمذی نسائی وغیرہ) لیکن یہ حدیث بہت ہی غریب ہے۔ ان بدری قیدیوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے صحابیو اگر چاہو تو انہیں قتل کردو اور اگر چاہو ان سے زر فدیہ وصول کر کے انہیں رہا کردو لیکن اس صورت میں اتنے ہی آدمی تمہارے شہید کئے جائیں گے۔ پس ان ستر شہیدوں میں سب سے آخر حضرت ثاب بین قیس ؓ تھے جو جنگ یمامہ میں شہید ہوئے ؓ یہ روایت حضرت عبیدہ سے مرسلا بھی مروی ہے واللہ اعلم۔ اگر پہلے ہی سے اللہ کی کتاب میں تمہارے لیے مال غنیمت سے حلال نہ لکھا ہوا ہوتا اور جب تک ہم بیان نہ فرما دیں تب تک عذاب نہیں کیا کرتے ایسا دستور ہمارا نہ ہوتا تو جو مال فدیہ تم نے لیا اس پر تمہیں بڑا بھاری عذاب ہوتا اسی طرح پہلے سے اللہ طے کرچکا ہے کہ کسی بدری صحابی کو وہ عذاب نہیں کرے گا۔ ان کے لیے مغفرت کی تحریر ہوچکی ہے۔ ام الکتاب میں تمہارے لیے مال غنیمت کی حلت لکھی جا چکی ہے۔ پس مال غنیمت تمہارے لیے حلال طیب ہے شوق سے کھاؤ پیو اور اپنے کام میں لاؤ۔ پہلے لکھا جا چکا تھا کہ اس امت کے لیے یہ حلال ہے یہی قول امام ابن جریر کا پسندیدہ ہے اور اسی کی شہادت بخاری مسلم کی حدیث سے ملتی ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں مجھے پانچ چیزیں دی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں مہینے بھر کے فاصلے تک میری مدد رعب سے کی گئی۔ میرے لیے پوری زمین مسجد پاکی اور نماز کی جگہ بنادی گئی مجھ پر غنیمتیں حلال کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی پر حلال نہ تھیں، مجھے شفاعت عطا فرمائی گئی ہر نبی خاصتہ اپنی قوم کی طرف ہی بھیجا جاتا تھا لیکن میں عام لوگوں کی طرف پیغمبر ﷺ بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں کسی سیاہ سر والے انسان کے لیے میرے سوا غنیمت حلال نہیں کی گئی۔ پس صحابہ نے ان بدری قیدیوں سے فدیہ لیا اور ابو داؤد میں ہے ہر ایک سے چار سو کی رقم بطور تاوان جنگ کے وصول کی گئی۔ پس جمہور علماء کرام کا مذہب یہ ہے کہ امام وقت کو اختیار ہے کہ اگر چاہے قیدی کفار کو قتل کر دے، جیسے بنو قریضہ کے قدیوں کے ساتھ حضور ﷺ نے کیا۔ اگر چاہے بدلے کا مال لے کر انہیں چھوڑ دے جیسے کہ بدری قیدیوں کے ساتھ حضور ﷺ نے کیا یا مسلمان قیدیوں کے بدلے چھوڑ دے جیسے کہ حضور ﷺ نے قبیلہ سلمہ بن اکوع کی ایک عورت اس کی لڑکی مشرکوں کے پاس جو مسلمان قیدی تھے ان کے بدلے میں دیا اور اگر چاہے انہیں غلام بنا کر رکھے۔ یہی مذہب امام شافعی کا اور علماء کرام کی ایک جماعت کا ہے۔ گو اوروں نے اس کا خلاف بھی کیا ہے یہاں اسکی تفصیل کی جگہ نہیں۔
Had it not been for an ordinance from God which had preceded making spoils and the taking of captives lawful for you an awful chastisement would have afflicted you for what you took as ransom.