And the people of the city came rejoicing. (* To the house of Prophet Lut.) — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
وجاء أهل مدينة لوط إلى لوط حين علموا بمن عنده من الضيوف، وهم فرحون يستبشرون بضيوفه؛ ليأخذوهم ويفعلوا بهم الفاحشة.
قوم لوط کی خر مستیاں قوم لوط کو جب معلوم ہوا کہ حضرت لوط ؑ کے گھر نوجوان خوبصورت مہمان آئے ہیں تو وہ اپنے بد ارادے سے خوشیاں مناتے ہوئے چڑھ دوڑے۔ حضرت لوط ؑ نے انہیں سمجھانا شروع کیا کہ اللہ سے ڈرو، میرے مہمانوں میں مجھے رسوا نہ کرو۔ اس وقت خود حضرت لوط ؑ کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ فرشتے ہیں۔ جیسے کہ سورة ہود میں ہے۔ یہاں گو اس کا ذکر بعد میں ہے اور فرشتوں کا ظاہر ہوجا نا پہلے ذکر ہوا ہے لیکن اس سے ترتیب مقصود نہیں۔ واؤ ترتیب کے لئے ہوتا بھی نہیں اور خصو صاً ایسی جگہ جہاں اس کے خلاف دلیل موجود ہو۔ آپ ان سے کہتے ہیں کہ میری آبرو ریزی کے درپے ہوجاؤ۔ لیکن وہ جواب دیتے ہیں کہ جب آپ کو یہ خیال تھا تو انہیں آپ نے اپنا مہمان کیوں بنایا ؟ ہم تو آپ کو اس سے منع کرچکے ہیں۔ تب آپ نے انہیں مزید سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ تمہاری عورتیں جو میری لڑکیاں ہیں، وہ خواہش پوری کرنے کی چیزیں ہیں نہ کہ یہ۔ اس کا پورا بیان نہایت وضاحت کے ساتھ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اس لئے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ چونکہ یہ بد لوگ اپنی خرمستی میں تھے اور جو قضا اور عذاب ان کے سروں پر جھوم رہا تھا اس سے غافل تھے اس لیے اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ کی قسم کھا کر ان کی یہ حالت بیان فرما رہا ہے اس میں آنحضرت ﷺ کی بہت تکریم اور تعظیم ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی جتنی مخلوق پیدا کی ہے ان میں حضور ﷺ سے زیادہ بزرگ کوئی نہیں۔ اللہ نے آپ کی حیات کے سوا کسی کی حیات کی قسم نہیں کھائی۔ سکرۃ سے مراد ضلالت و گمراہی ہے، اسی میں وہ کھیل رہے تھے اور تردد میں تھے۔
And then came the people of the city the city of Sodom that is the people of Lot upon being told that there were handsome clean-shaven individuals — namely the angels — in the house of Lot rejoicing yastabshirūn is a circumstantial qualifier desiring to commit an abomination with them.